Monday, March 2, 2009

عابدہ تقی کےافسانے


یس یور ایکسی لینسی اوردوسرے افسانے
عابدہ تقی کے افسانوں کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
مجھے شاعرہ عابدہ تقی کے افسانوں کی پہلی کتاب پر بات کرنی ہے اور احمد فراز کا ایک جملہ یاد آرہا ہے ۔ ایک ایسا جملہ‘ جو شاعر مشکل ہی سے کہہ پاتے ہیں مگر احمد فراز نے کہا اور ہم نے اپنے کانوں سے سنا ۔ میں وہ جملہ آپ تک پہنچاناچاہتا ہوں ‘مگر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پہلے اس ماحول کی بابت بتا دوں جو اس جملے کا باعث ہوا تھا۔ تو صاحبو ماحول یہ تھا کہ کشور ناہید کے ہاں ہندوستان سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں جیلانی بانو‘ خلیق انجم اور انور معظم کے لیے دعوت کی تقریب تھی۔ کھایا پیا جا چکا‘ حتی کہ افتخار عارف اور خلیق انجم بھی جا چکے تو جو باقی بچے ‘اُن میں فکشن نگارزیادہ تھے ۔احمد فراز کو شرارت سوجھی کہا بھئی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر ایسی تقریب میں فرمائش ہوتی ہے ‘غزل سناﺅ‘ کوئی افسانہ سننے کو نہیں کہتا ہے ۔ منشایاد نے بات سنی اور ان سنی کردی ‘ میں اپنی کہنے لگا‘ مسعود مفتی نے بھی مقابلے کا چٹکلہ چھوڑا حتی کہ احمد فراز وہ جملہ کہنے پر مجبور ہوئے جو میں آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔ اوروہ جملہ ایسا تھا جس پرسب نے داد دی تھی : ”شاعری اور تخلیقی نثر میں بس اتنا فرق ہے جتنا دو جینوئن لکھنے والوں میں ہوتا ہے“ یہ بات قطعاً اس سے مختلف ہے جو بہت پہلے شمس الرحمن فاروقی نے”افسانے کی حمایت میں“ کہی تھی۔ وہی شاعری کے مراتب جلیلہ کے مقابلے میں افسانے کو بے چارہ اورکمتر کہہ ڈالنے کی بات۔تاہم اس کا بھی لطف لیجئے کہ ازاں بعد فاروقی فکشن لکھنے کی جانب یوں راغب ہوئے ہیں کہ ان کی اس بات پربے مزا ہونے والوں کو بھی انہیں پڑھ پڑھ کر لطف آنے لگا ہے ۔ میں نے شبنم شکیل کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے لکھا تھا :” صاحب جسے عمر بھر آپ اصناف پر حکمرانی کے لائق گردانتے رہے ‘ اسے سب اصناف سے اعلی واولی قرار دیتے رہے ‘ اس میں حوصلہ تھا‘ نہ تڑ‘ کہ ُان تخلیقی تجربوں کو سہار سکتی جو اس کمزور‘ معمولی اور نہ بدلنے والی صنف نے کمال ہمت سے اور اپنے بھیتر کے دائروں اور بھنوروں کو بدل کر سہار لیے ہیں۔“ شبنم شکیل کے افسانوں کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بتانے کو جی چاہنے لگا ہے کہ فہمیدہ ریاض سے لے کر فاطمہ حسن تک اور شبنم شکیل سے لے کر عابدہ تقی تک یہ جو شاعرات جوق در جوق فکشن کی طرف راغب ہو رہی ہیں تو یہ سب شاعری میں اپنا نام کما کر ادھر کو آئی ہیں۔ عابدہ تقی کو ہی لیجئے ‘ اس کی شاعری کے اب تک تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ وہ جو شمس الرحمن فاروقی نے افسانہ نگاروں پر پھبتی کس کر کہا تھا : ”تاریخ کم بخت تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی شخص صرف و محض افسانہ نگاری کے بانس پر چڑھ کر بڑا ادیب نہیں بن سکا“ تو یوں ہے کہ اس باب میں خودشمس الرحمن فاروقی سے وحید احمد اورعابدہ تقی تک فکشن کی طرف راغب ہونے والوں نے مجھے یہ کہنے کی سہولت بھی بہم کردی ہے کہ لکھنے والا جب لکھ رہا ہوتا ہے تو وہ ’بڑا ادیب ‘بننے کی نیت باندھ کر اور’ شہرت کے بانس‘ پر چڑھنے کو زندگی کا مقصد جان نہیں لکھ رہا ہوتا‘ وہ تو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر صدق دل سے تخلیق کے تجربے کے مقابل ہو رہا ہوتاہے ۔ اب ایسے میں شعر ہو یا افسانہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اوہ ‘ یہ میں کیا کہہ گیا.... فرق پڑتا بھی ہے ‘ ہاں ماننا چاہیے‘ کہ بالکل پڑتا ہے ‘ .... جب لکھنے والا ایک تخلیقی صنف کے قرینوں سے وابستہ رہتے ہوئے دوسری تخلیقی صنف کے دائرے میں گھس جاتا ہے تو ٹھیک ٹھاک فرق پڑتا ہے تاہم میں اسے خام تجربے کا شاخسانہ کہوں گا۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ فکشن کے جملے کا اپنا قرینہ اور اپنا آہنگ ہوتا ہے ۔ شعر کہنے والا جب تک اس سے آگہی نہیں پاتا وہ نثر پارے لکھتا ہے جو افسانے تو کیا‘ نثمیں بھی نہیں بن پاتیں یا پھر نثری متن میں ادھر ادھرشعری کترنوں کی جھالریںلگا لیتا ہے ۔ فکشن کی نثر کو شاعری کے قرینے سے برتنے والے ہمیشہ تخلیق کے التباس میں رہے ہیں ۔ اس رویے نے ہمارے اچھے بھلے افسانہ نگاروں کو بھی بہکایا اور وہ اپنی فکشن کی نثر کو شاعرانہ بنانے کی للک میں بہت رسوا ہوئے۔ عابدہ تقی کے افسانوں کی بستی میں‘ مَیں اِسی زبان کے دروازے داخل ہوا ہوں۔ اب یہ مان لینے میں کیساتردّد کہ جب عابدہ نے اپنے افسانوں کا مسودہ مجھے ارسال کیا تھا تو میں غزل کہنے اور لگ بھگ اسی تخلیقی تجربے کی توسیع بنتی نظم والی عابدہ کو ذہن میں رکھ کر ہزار اندیشوںاور وسوں کو دل میں راہ دے چکا تھا۔ تاہم یہیں مجھے یہ اعتراف بھی کرنا ہے کہ ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے میں بہت جلد بھول گیا کہ یہ ایک شاعرہ کے لکھے ہوئے ہیں۔ غالباً یہ بات بیدی نے کہی تھی کہ’ ایک لکھنے والے کے اندر ایک سے زیادہ تخلیقی وجود ہو سکتے ہیں‘ تو یوں ہے کہ ان افسانوں میں عابدہ کا یہ دوسرا تخلیقی وجود میرے مقابل تھا‘ شاعرہ عابدہ سے مختلف ۔ سادہ رواں ‘ فکشن کا اپنا آہنگ لیے ہوئے ‘ واقعے کی تفصیلات کوسہولت ‘سلاست اور سلیقے سے بیان کرنے والی نثر سے وفادار ی کو شعار کیے ہوئے ....اور پھر اس وفاداری کو شروع سے آخر تک نبھاتے ہوئے ۔ عابد ہ کے ہاں کہانی کا ٹھوس وجود انتہائی محترم ہو گیا ہے ۔ اس کے ہاںواقعات مدہم بہاﺅ میں بہتے ہیں ۔ زمانی ترتیب میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوتی تاہم کہیں کہیں وہ فلیش بیک تیکنیک سے ندرت پیدا کر لیتی ہے۔ بالعموم کہانی لکھنے کے لیے اُسے کسی بہت بڑے سانحے یا شدیدبات کی تلاش نہیں ہوتی کہ اسے زندگی کی کچی پکی گلیوں سے گرے پڑے کرداروں کو اٹھاکر ان کے روز مرہ کے دُکھ سکھ سے کہانی بُننے کا ہنر آتا ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ متن کے اندر سے کہانی کا بڑا پن کیسے برآمد کیا جا سکتا ہے ۔ کہانی میں جزیات عابدہ کے ہاں بہت اہم ہیں ‘ وہ ا ن ہی سے کہانی کا ماحول بناتی ہے اور اس ماحول میں تحرک پیدا کرتی ہے تاہم لطف یہ ہے کہ یہ جزیات نگاری کہیں بھی اس کے اندر تفصیل نگاری کی اشتہا باعث نہیں ہوتی۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ کہانی کا متن واقعے کے کتنے اور کیسے اجزاءکو سمیٹ سکتا ہے ۔ ایک اور بات جو عابدہ کے بیانیے کو بوجھل ہونے سے بچا لیتی ہے وہ اس کی شگفتگی ہے بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ جہاں اسے بیانیہ اجازت دیتا ہے وہ مضحک صورت حال کو اس میں سمو لیتی ہے ۔ یہ لگ بھگ وہی طرز عمل ہے جو بیدی کے ہاں‘فاروقی نے تلاش کیا اور اسے پسند بھی کیا تھا ۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ بہت محتاط رہتی ہے اور ایسے لطیف یا طنزیہ جملوں سے کہانی کے عمومی بہاﺅ میں نہ تو رخنہ پڑنے دیتی ہے اور نہ ہی قاری کو اس کی مجموعی فضا سے باہر نکلنے دیتی ہے ۔ عابدہ نے انسانی حیات کے نامعلوم یادُھند میں ڈوبے ہوئے جزیروں سے بہت زیادہ اِعتنا نہیں رکھا کہ اس کی کہانی کے لیے سماجی زندگی کے معلوم علاقوں اور اس کی مسلمہ اقدار سے وابستگی اور پیوستگی ہی بہت اہم ہو جاتی ہے ۔ اس کی ساری کہانیاں انہی علاقوں کا احوال کہتی ہیں ۔ اِن کہانیوں میں وہ قاری کو بیچ منجدھار میں نہیں چھوڑ تی‘ ایک ترسیل ہوجانے والے انجام تک لے کر چلتی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ قاری خود کو بند گلی میں نہ پاکر ہر بار زندگی کرنے کے حوصلے سے اپنادل کناروں تک بھرلیتا ہے ۔ تاہم تقدیر سے لڑنے کے معاملے میں اس کے ہاں بے بسی کا رویہ نمایاں ہے ۔ وہ بتانا چاہتی ہے کہ معاشرے کے پسے اور روندے ہوئے لوگ زندگی کی مصروف شاہراہ پر اپنے معصوم قدموں سے بھاگ تو سکتے ہیں مگر مقدر کے ٹینکر تلے کچلے جانے سے بچ نکلنا ان کے بس میں نہیں ہے‘ تقدیر ان کی ٹانگیں کاٹ سکتی ہے اور کاٹ دیتی ہے۔ صاحب ‘ آدمی ہمت کرے تو زمانے بھر سے بِھڑ سکتا ہے مگر تقدیر سے کیوں کر لڑے گا ‘ جولڑے گا توکیا اپنا بدن ریزہ ریزہ نہ کروابیٹھے گا؟ اور ہاں ‘ یہ بات ایک تخلیق کار لڑکی کے ہاں بہت اہم ہو جاتی ہے کہ محبت اس کے تخلیقی تجربے میں ککر متے کی طرح اُگ آنے والا جذبہ نہیں رہتی انتہائی محترم اور پاکیزہ جذبہ ہو جاتی ہے انسانی وجود کے اندر اترا ہوا اور تہذیب یافتہ ۔ اس جذبے کی طنابیں کسی ہوئی ہیں اور عابدہ کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ اس جذبے کو سیکھا جا سکتا ہے۔ اعلی آدرشوں کا سحر بھی اس کے ہاں ابھی تک قائم ہے۔ تہذیبی زندگی پر اس کا ایمان پختہ ہے ۔ مثبت ‘ معاشرتی اقدار‘ خاندان کی کلیت اور رشتوں کا احترام عابدہ کے ہاں ایمان کی سطح پر ملتے ہیں ۔ اس کی کہانیوں سے سے ان جذبوں کی خوشبو اتنی خالص ہے کہپڑھنے والوں کے خون کا حصہ ہو جاتی ہے ۔ مرد کرداروں کے مقابلے میںعابدہ کی کہانیوں کی عورتیں زیادہ متحرک اور فعال ہیں ‘ تاہم لطف یہ ہے کہ یہ عورتیں اپنے ہاں کی ٹھہری ہوئی تہذیب کی پروردہ ہیں ۔ یہ میں اس کے باوجود کہہ رہا ہوں کہ اس کی کہانیوں میںبلیو جینز‘ وائٹ ٹاپ اورزندگی کو آزادہ روی سے لینے والی عورت کا روپ ملتا ہے اور بلیک پینٹ‘آف وہائٹ سلیولیس شرٹ والی بہت آگے بڑھ جانے اور زندگی کوہار دینے والی عورت کابھی۔ کہیں اس کی عورت جم غفیر میں ٹی وی والوں کے لیے انٹرویو لے رہی ہوتی ہے اور کہیں اعلی تعلیم کے خواب دیکھتے دیکھتے اس کے آنکھیں حقیقت کی چوندھ کے مقابل ہوجاتی ہیں ۔ یہ بھی ہوا ہے کہ اس کی عورت کو”یس یور ایکسی لینسی“ کہہ کر سفیر کے ہاتھوں گلاب کے پھول وصول کرنے اور نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانا پڑا ہے ۔یوں کہہ لیں صاحب کہ گھر سے نکلی ہوئی اور مرد کے ساتھ معاشی جدوجہد میں مصروف عورت عابدہ کی کہانیوں میں زیادہ اعتنا پاتی رہی ہے۔ مگرآپ عابدہ کی سب کہانیاں پڑھ جائیں وہ کہیں سے بھی گھر اور خاندان کی باغی نہیں لگتی‘ یہی سبب ہے کہ میں نے اسے اپنی تہذیب کی پروردہ عورت کہا ہے ۔ سچ پوچھئے تو یہی ہمارے ہاں کے مستقبل کی عورت ہے۔ وہ بات جو میں نے آغاز میں لکھ دی تھی ‘ احمد فراز والی ‘ ....تو آخر میں یہ بتانا ہے کہ وہ میں نے یوں ہی نہیں لکھ دی تھی ‘اس کا ایک سبب بھی تھا .... یہی کہ فکشن اور شاعری کے تخلیقی تجربے عابدہ کے ہاں بالکل جداگانہ آہنگ لے کر آئے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے سے مرعوب نہیں ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو زچ کرنے میں جتے ہوئے بھی نہیں ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کو مانتے ہیں ایک خود مکتفی تخلیقی وجود کی صورت میں ....اور یہی وہ وصف ہے جس نے مجھے یقین دلا دیا ہے کہ عابدہ فکشن میں دور تک چلنے کی سکت رکھتی ہے ۔ عابدہ نے غزلیںکہیں‘نظمیں لکھیں ‘ مطالعے کی طرف بھی خوب راغب ہے‘ لہذا بات کرے توتول تول کر کرتی ہے اور بھلی لگتی ہے ۔ اب ان کہانیاں کو پڑھ کر مجھے یقین ہو چلا ہے کہ وہ اس میدان میں بھی بہت آگے تک جائے گی اور یہ بھی کہانیاں اپنا حلقہ اثر بنا لینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers