Monday, March 2, 2009

ظہیربدر کا ناول

ادھوری محبتیں اور چندادھوری باتیں
ظہیربدرکےناول کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
کچھ دن ہوتے ہیں مجھے اسرائیلی ادیب اے بی یہوشوا اور لبنانی ادیب الیاس خوری کا ایک ساتھ لیا گیا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ انٹرویو ڈیبی ایلیٹ نے لیا تھا اور اس کا متن ”دنیازاد“ نے این پی آر کی ویب سائٹ سے لے کر اردو پڑھنے والوں کو فراہم کر دیا تھا۔ الیاس خوری نے اسی نٹرویو میں ایک دلچسپ بات کہی تھی ۔ ابوظبی میں مقیم ظہیر بدر کے زیر نظر ناول پر کچھ کہنے سے پیشتر جی چاہتا ہے وہ آپ بھی پڑھ لیں ۔ الیاس خوری کی جس بات کا میں ذکرکرنے جا رہا ہوں وہ اے بی یہوشوا کی اس اطلاع کے ساتھ جڑی ہوئی تھی کہ بقول اس کے وہ اپنے نئے ناول کا اختتامی حصہ لکھ رہا تھا اور یہ کہ اس کے ناول کے کردار اس سے بضد تھے کہ تم انہیں اکیلے چھوڑ کر جنگ کی طرف نہیں جا سکتے۔ الیاس خوری کے مطابق اس نے بھی اپنا نیا ناول کو مکمل کر لیا تھا۔ تاہم وہ اپنے ناول کو لکھتے ہوئے اس کے کرداروں کی طرف اس طرح نہیں جاسکتا تھا جس طرح یہوشوا چلا گیا تھا۔ وہ اپنے مرکزی کرداروں کواپنے ساتھ جنگ کے میدان میں لے گیا تھا کہ وہ خود جنگ کی مصیبت اور تباہی کو دیکھ سکیں۔ ظہیر بدر کے ساتھ بھی لگ بھگ الیاس خوری والاحادثہ ہوا ہے ۔ اس نے ان ادھوری محبتوں کی کہانی لکھنے کا قصد باندھا تھا جنہیں وہ اپنے تئیں زندگی کا تلذذ سمجھتا رہا مگر اسے اپنی کہانی کے کرداروں کو قومی انتشار کے میدان کارزار میں لے جانا پڑا۔ ظہیر بدر کی اس کہانی میں ہر واقعہ بولتا ہوا آتا ہے بالکل یوں جیسے بندوق سے چلائی گئی گولی بولتی ہے یا پھر جیسے خبر بولتی ہے.... اپنے سارے حوالوں کے ساتھ.... فکشن کو یوں لکھنا کہ فیکٹس لکھنے والے کے اعصاب پر حاوی رہیں اور ان کے بیچ سے کہانی کے کرداروں کو اپنی شباہت اور قد کاٹھ کے ساتھ آگے بڑھائے چلے جانا بہت حوصلے کی بات ہوتی ہے ۔ یہ حوصلہ ظہیر بدر کے پاس ہے لہذ ا اس کی کہانی میں پنجاب یونیورسٹی سے لے کر قومی سطح تک کی سیاست اور ہنگامے بہ سہولت سماگئے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ ناول کا ماحول تعمیر کرنے کے لیے جن سیاسی ‘ ثقافتی ‘سماجی اور قومی شخصیات کو حوالے کے طور پر چنا گیا ہے ان کے نام ہماری تاریخ کے ماضی قریب کے باب کا حصہ ہیں ۔ مجھے اس مقام پر یہ تسلیم کرنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ اس روش کو اپنانے میں ایک خدشہ تو یہ ہے فکشن پرتاریخ کا گمان ہونے لگتا ہے یا پھر کہانی کو خبر بننا پڑتاہے ۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ یوں متن کی سطح پر تو واقعات کی خوب چہل پہل ہوتی ہے مگر جملوں میں دبازت آتی ہے نہ کوئی ایسا باطنی نظام بن پاتا ہے جو معنی کی ایک اور سطح کو اجالتا چلا جائے ۔ ظہیر بدرتخلیقی عمل کے اس بھید کوجانتا ہے لہذا اس نے قومی ‘ ثقافتی اور ادبی زندگی کے ساتھ ساتھ ادھوری محبتوں سے خوب خوب کام لے کر اپنے پڑھنے والوں کے دلوں کو گداز بنا لیا ہے ۔ صاحب ‘یہیںایک قصہ یاد آتا ہے۔ یہ قصہ میں نے مایا کافسکی کے حوالے سے کہیں پڑھا تھا ۔ کہتے ہیں وہ ماسکو کے ایک ایسے ہال میں اپنی شاعری سنا رہا تھا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مایاکا فسکی نے میلے کچیلے اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن رکھے تھے لہذا اپنا کلام سناتے ہوئے اسے اپنی نیچے کو کھسک جانے والی پتلون بار بار اوپرکھینچنا پڑتی۔ سارا مجمع مایاکا فسکی کے کلام میں محو تھا مگر ایک لڑکی کواس کے بار بار پتلون اوپر کھینچنے پر الجھن ہو رہی تھی۔ اس کا دھیان کلام پر نہ رہا لہذا مایا کافسکی کو پکار کر کہا ‘تم اپنی پتلون بار بار اوپر کیوں کھینچتے ہو؟ مایا کافسکی نے اپنا کلام سناتے سناتے اسے جواب دیا ” تو کیا تم چاہتی ہو کہ یہ نیچے گر پڑے؟“ تو یوں ہے کہ وہ کردار جو اصلی ہیں ‘ وہ اگر قارئین کے ایسے گروہ کو جس کا مزاج اسی لڑکی جیسا ہے ‘ الجھانے لگیں تو اس طبقے کو جان لینا چاہیے کہ ان کرداروں کا وجود ہماری قومی زندگی کا ایسا میلا لبادہ ہے ‘ جسے سہولت سے گرایا جا سکتا ہے نہ ڈھنگ سے قومی کمر پر جمایا جا سکتا ہے ۔ ظہیر بدر نے مایاکافسکی کی طرح قومی زندگی کے میلے لبادے کو دھو کر اور اسے اپنی مرضی کا نیل اور کلف دے کرپہننے کی بجائے اسی طرح لیا ہے جیسا کہ وہ تھا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نے فنکارانہ احتیاط سے اپنے موضوع کی تمام باریکیوں کو اجالنے کا ہتمام بھی کیا ہے ۔ جی ‘ ظہیر کے جس قرینے کی میں بات کر رہا ہوں اس کا اندازہ وہاں وہاں بخوبی لگایا جاسکتا ہے ‘جہاں اس نے اپنے کرداروں کو اپنی مرضی اور سہولت سے تراشا ہے ۔ کہانی کا آغاز نوازش اور نیلسن کے بھر پور کرداروں سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں کردار آخر تک چلتے ہیں اور قاری کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اپنے اپنے مقام پر کئی دوسرے کردار اس بخت کے ساتھ آئے چلے جاتے ہیں جو ناول نگار نے ان کے لیے اپنے قلم سے لکھ دیا ہے ۔ میڈم اولگا ‘وہ کہ جس نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی۔ نوازش کی بے نیازی سے گھائل ہونے والی بیورو کریٹ کی شوخ و شنگ لڑکی شاہدہ۔ یہ تو بعد میں کھلتا ہے کہ وہ کسی بیوروکریٹ کی بیٹی نہیں ‘ایک لو میرج کے بعد دو جسموں کے اتصال کا نتیجہ تھی ۔ شدید محبت کرنے والے مگر بعد میں ایک دوسرے سے تنگ آکر خود کشی کرنے والے۔ یونیورسٹی سے رسوا ہو کر نکل جانے والی بازار حسن کی نازاں‘ جسے بعدازاں نوازش نے پڑھایا اور جس کی رانوں نے اسے اور طرح کی لذت پڑھائی ۔ وہ رابعہ جو نوازش کی زندگی میںداخل ہو کر بھی الگ رہی تھی یا پھر نصر اور سمیعہ کی وہ جوڑی جس کے اندر نیلسن سماگئی تھی ۔ یہ الگ بات کہ بعدازاں سمیعہ کے مقدر میں مصنف نے موت لکھ کر کسی حد تک ادھوری رہ جانے والی محبتوں کے چلن کو بدلنا چاہا تھا۔ نائل اور سوشیل کے کردار ہوں یا غلام حسن کا وہ کردار جسے شراب نہ مار سکی مگر جسے نصیحتوں نے مار دیا تھا۔ پھر کہانی کے اندر ستاروں کی طرح یہاں وہاں جگ مگ جگ مگ کرنے والے چھوٹے چھوٹے کردار ۔ تو یوں ہے کہ انہی کرداروں سے کہانی توانائی پاتی ہے اور کامیابی سے آگے بڑھتی ہے۔ یہاں نیلسن کے کردار کاالگ سے ذکر کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ایسے زندہ کردار سہولت سے نہیں تراشے جا سکتے ۔ جی میں اسی نیلسن کی بات کر رہا ہوں جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس سے نوازش کو محبت ہو گئی تھی ۔ سانولی سلونی سی قاتلہ مگر جس کی محبت کو نوازش نے قتل کر دینا چاہا تھا۔ جب اس ناول کا ہیرو نیلسن سے اسلام قبول کر لینے کا مطالبہ کر رہا تھا تو منٹو کے افسانے ”دوقومیں“ کے دوکردار مختار اور شاردا میرے ذہن میں پوری طرح روشن ہو گئے تھے۔ منٹو کامختار بھی ظہیر کے نوازش کی طرح اپنے گھروالوں کو راضی کرنے کے بعد اپنی محبوبہ کو اسلام قبول کرنے کا مشورہ ینے پہنچ گیا تھا۔ ظہیر کی نیلسن منٹو کی شاردا سے مذہب کے باب میں کہیں باوقار نکلی ۔ منٹو کی کہانی میں جب مختار نے شاردا سے مسلمان ہونے کا کہا تو اس نے ترت حساب چکا دیا تھا ”تم ہندو ہو جاﺅ نا“ اور اسی بات پر دونوں کو اپنی اپنی محبت کے ساتھ الگ ہو جانا پڑا تھا۔ ظہیر کی کہانی یہیں سے مختلف ہو جاتی ہے۔ نیلسن کی محبت شاردا کے مقابلے میں بہت اعلی درجے کی ہے۔ اعلی ‘پختہ اور زیادہ بالغ نظر۔ تب ہی تو مذہب کا الجھیڑا نیلسن کے لیے تعجب ضرور بنا مگر اسے جھٹک دینااس کے لیے مشکل نہ رہا تھا۔ وہ اس کے لیے مذہب تبدیل کرنے پر راضی ہو گئی تھی۔ ظہیر نے کہانی کے بہاﺅ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر یہ کچھ نوازش کو کرنا پڑتا تواس کا رویہ منٹو کے مختار جیسا ہی ہوتا۔ تو یوں ہے کہ منٹو کی کہانی جس نقطے پر ختم ہو ئی تھی اور شاید اسی جذباتی خاتمے کی وجہ سے ایک کامیاب کہانی کا تاثر نہ چھوڑ سکی تھی وہیں سے ظہیر کی کہانی دامن بچا کر آگے بڑھ گئی ۔ ظہیر بدر اس معاملے میں بہت کائیاں نکلا فوری فیصلے کی بجائے اس نے نوازش کو اس باب میں سوچنے کا وقت دیا یہاں تک کے اس کے دل میں کئی خدشوں نے سر اٹھا لیا ۔ اس نے ایک لڑکی کو مسلمان کیا تھامگر یہ تفاخر اس کے اندر اطمینان نہ پیدا کرسکاتھا۔ وہ اند ر سے ملول تھا۔نیلسن نے اس کی بات مان لی تھی مگر جاتے جاتے اس کی چپ کے اندر سرسراتی سرد آہ نوازش کو تڑپا گئی۔ کئی روز تک رات کی تنہائیوں میں نیلسن کا چپ چہرہ اسے اس کے کئے پر اور اپنے کہے پر خون کے آنسو رُلاتا رہا۔ نیلسن کے اس غیر متوقع اور غیر معمولی ردعمل نے اس کی روح کو کئی ماہ تک اضطراب اور احساس ِ گناہ میں مبتلا رکھاتھا۔ کہانی کا جبر دیکھیے کہ نوازش ابھی تک یہ سمجھ ہی نہ سکا تھا کہ نیلسن اسے جسمانی سطح پر چاہتی تھی یا روحانی سطح پر لہذا اسے یہ وسوسے ستائے جاتے تھے کہ جو لڑکی ایک جسمانی تلذذ کے لئے اپنے روحانی رشتوں کو ترک کر رہی تھی وہ کل کو کسی اور کے لئے اسے بھی ترک کر سکتی تھی۔ ماننا پڑے گا کہ ظہیر نے اس باب میں منٹو کی شاردا سے کہیں اعلی کردار تراشا ہے اور کیا خوب محبت سے ترا شاہے ۔ نیلسن کی محبت اور قربانی دونوں کی قدر نہ ہوئی مگر جب وقت آیا تو اس نے کلمہ پڑھ کر اپنا گردہ نوازش کو دان کر دیا کہ اس کے گردے کو اب ایک مسلمان کے جسم کا حصہ ہونا تھا۔ لطف یہ ہے کہ اس کے بعد وہ کوئی احساس جتلائے بغیر ‘ اور اپنی قربانی کی کوئی تختی لگائے بغیر اس کی زندگی سے الگ رہتی ہے۔ اس میں اپنے جذبوں کو تھامے رکھنے کا کتنا حوصلہ تھا اس کا اندازہ لگانا ہو تو کہانی کے آخری حصے میں پہنچئے وہاں جہاں نوازش اپنی زندگی کو ایک پورے انسان کی زندگی ہوتے ہوئے بھی ادھوری قرار دے رہا ہے اور اعتراف کررہا ہے وہ نیلسن کے حالہ ¿ خیال سے نکل نہیں پایاجب کہ نیلسن کمال ضبط سے اپنے راستے کو الگ رکھتی ہے ۔ اس کے اس طرز عمل نے میرے دل میں نیلسن کی توقیر بڑھا دی ہے۔ آخر میں مجھے کہنے دیجئے کہ یہ ادھوری محبتوں کی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی زندگی کے زوال کانوحہ بھی ہے ۔ ایسے اسلوب میں لکھا گیا نوحہ ‘جس میں متعین مطالب کہیں بھی سطروں سے بے وفائی نہیں کرتے۔ کردار اپنی اپنی الگ سے شباہت بناتے اور پوری قامت پاتے ہیں ۔ واقعات میں بہاﺅ ہے‘ یہ بولتے ہوئے ہیں اوران میں کہیں اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوتی ۔ زمانی ترتیب آخر تک اپنی متعین دھج پررہتی ہے ۔ ہماری زندگیوں میں اندر تک دخیل ہونے والی محبت اور سیاست کواس ناول میں بڑی ہوشیاری سے برتا گیاہے ۔ اسی تجزیاتی برتے پر مجھے اپنے اس یقین کا اظہار بھی کر لینے دیجئے کہ صاحب ‘ ظہیربدر کے اس ناول کو بہت قاری میسر آئیں گے۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers