Monday, March 2, 2009

مصطفی شاہد کے افسانے

مصطفی شاہد کے افسانے
مصطفی شاہد کےافسانوں کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
مصطفی شاہد کے افسانے محض واقعات پر انحصار نہیں کرتے یہ انسانی وجود کے اندر کے بھید وں سےمکالمہ بھی کرتے ہیں ۔ جب سے میں نے ”فاصلہ“ ”آخری صفحہ “” اپنی زندگی“ ”بےایمانی“”ردعمل“”مشکل“ اور”خون“ جیسی کہانیاں پڑھی ہیں میں اس کے قلم کی جادوگری کا قائل ہو گیا ہوں ۔ سامنے کے مناظر اورماحول میں کرداروں کورواں دواں رکھنا اور چلتے واقعات کے اندر سے زندگی کرنے کا قرینہ نکال لانا‘ پھر اس عمل کو انسانی نفسیات کی الجھنوں سے جوڑ دینا‘ یوں کہ کرداروں کے کے اندر کے تضادات واضح ہوتے چلے جائیں بڑی ہنرمندی کا کام ہے ....اور .... لطف کی بات یہ ہے کہ ادبی مراکز سے دور رہ کر کہانی کی محبت میں اسیر ہوجانے والے اس فنکار کو یہ ہنر آتا ہے۔ آدمی آخر ہے کیا ؟.... یہ وہ بنیادی سوال ہے جس نے افسانہ نگار کو اندر سے بے چین رکھا ہوا ہے ۔ کہانی ”خون“ میں وہ انسانیت کا دعوی رکھنے والے ایسے جارح جتھے کا ذکر کرتا ہے جس نے بیروت پر بارود برسا کر اسے تہس نہس کر ڈالا ہے اور اس کے مقابل انہی میں سے ایک یہودی کردار ایرون کو لاکھڑا کرتا ہے جو ملبے سے لاشےں نکال رہا ہوتا ہے تووہ محض یہودی نہیں رہتا انسانیت کا نمائندہ ہو جاتا ہے۔ کہانی ”مشکل‘کا آسانیاں پیدا کرنے والا انیق ہو یاپھر اپنے اللہ کو اپنی بپتا سنانے اورتسبیح کے دانے گھمانے والا طاہر‘دونوں کہانی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے اپنی خو بدل لیتے ہیں ۔ افسانہ ”ردعمل“ میں باپ کو اپنی کجیاں نظر نہیں آتیں مگر بیٹے کے عیب اس شدت سے کھٹکتے ہیں کہ وہ اسے پیٹ ڈالتا ہے ۔ ”بے ایمانی“ میں یہی کہانی ڈاکے مارنے والوں کے بیچ دھرائی جاتی ہے۔ ” اپنی زندگی“ میں اپنے ڈھنگ سے جینے کا وہ ہنر سکھایا جارہا ہے جس کی راہ خود آدمی نے اپنے آپ پر مسدود کر رکھی ہے جب کہ”آخری صفحہ “ میں قدرت کے اس کھیل کاقصہ کہا گیا ہے جو وہ آدمی کے ساتھ کھیلتی ہے ۔ ”خون “ کے سوا لگ بھگ ہر کہانی میں مصطفی شاہد کا آدمی آخر میں مات کھا جاتا ہے ۔ یوں نہیں ہے کہ سے آدمی کا مات کھانا مرغوب ہو گیا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یوں آدمی کا پچھڑنا اسے کھلنے لگا ہے ۔ اسی بے قراری اور بے کلی نے اس کی کہانی کو انسانی نفسیا ت اور فکری الجھاووں سے جوڑ دیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ واقعہ لکھنا تو آدمی کوشش سے اور مشقت سے سیکھ سکتا ہے مگر انسانی دکھوں کو لکھنے اور انسانیت کی راہ کے رخنوں پر اس وقت تک لکھا ہی نہیں جا سکتا جب تک یہ سب آشوب تخلیق کار کے وجود کا اپنا مسئلہ نہیں ہو جاتے ۔ میرے لیے اس با صلاحیت افسانہ نگار کے یہ فن پارے یوں بھی بہت اہم ہو گئے ہیں کہ وہ واقعہ نگاری کی لذت کا اسیر ہوئے بغیر کہانی کہنے اور انسانی وجود کے بھیدبھنور اجالنے پر قادر ہو گیا ہے ۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Followers