Tuesday, March 3, 2009

حفیظ خان کے افسانے

وہ افسانے جو ایک مرد ہی لکھ سکتا تھا
حفیظ خان کی کتا ب.....یہ جو عورت ہے...کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد

ایک مکالمے کے دوران اشفاق احمد نے فرمایا تھا:
”جنس سے انسان، خاص طور پر مرد کبھی نہیں تھکتا۔ وہ اس میں دور تک چلا جاتا ہے، دیر تک رہتا ہے۔“
اشفاق احمد کا یہ جملہ مجھے حفیظ خان کے افسانوں کے مجموعے ”یہ جو عورت ہے“ کو بغور پڑھنے پر یاد آیا، چودہ افسانوں کی اس کتاب میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے، اپنے آپ سے وابستہ کر لیتی ہے۔ صرف لذت، رنگ اور خوشبو کے چھینٹے ہی نہیں اُڑاتی، کئی سوالات بھی اٹھاتی ہے۔
عورت کے بارے میں ایسے سوالات جو صرف ایک مرد ہی بہتر طور پر اٹھا سکتا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو عورت اور مرد کے بیچ ہمیشہ سے رہے ہیں اور ہمیشہ رہ جانے کے لےے ہیں۔
ان سوالات کے سِکّے کھن کھناتے مرد اور اس کھن کھن کے بدن میں نئے نئے معنی کی روح اتارتی عورتیں، بظاہر اس دائرے سے نکلنے کا جتن کرتے دِکھتے ہیں مگر فی الاصل یوں ہے کہ وہ اِسی کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ عجیب لذت کا رہٹ ہے کہ ہر بار پڑجھے سے ہوتا، ہودی کے راستے ایسا غوغائی سیال مستقبل کے کھیتوں میں انڈیلا چلا جا رہا ہے جو رقیق ہونے پر وہیں جم جاتا ہے۔ نرم زمینوں کے اندر نہیں اُترتا ، نہ ہی آگے کو بہتا ہے کہ یوں بہے چلے جانا اس کی خصلت نہیں ہے۔ بس یوں کَہ لیجےے کہ یہ تو انسانی معاشرے کے کنویں کی خصلت ہے۔ ڈھیر بنتی ہوئی اٹ، بوسیدہ معاشرے کے تازہ کنویں کہ تہہ سے نکل کر باہر پھسلن بناتی اٹ ، کہ اس سے پھسل پھسل کر گرنا اور اس کی بُو کو سانسوں میں یوں رچا بسا لینا کہ وہ خوشبو کا سارا احترام پالے، دونوں جانب کی فطرت کا حصہ ہے اور ”یہ جو عورت ہے“ کہ کہانیاں ہیں، یہ اسی فطرت کا قصہ ہیں۔
اشفاق احمد کو ایک بار پھر یاد کر لینے دیجےے کہ ان کی کہی ہوئی ایک اور بات دہرانے کا موقع نکل آیا ہے، فرماتے ہیں:
”جنس ایک بڑی طاقت ور اور بڑی پاکیزہ چیز ہے۔“
پھر اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں:
”یہ میری creation کی باعث ہے، دیکھیں جی! میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، یہ جنس اس کے پیچھے کارفرما تھی تو میں تشریف لے آیا ہوں۔ لہٰذا میں اس کا احترام کرتا ہوں۔“
اشفاق احمد جس جنس کا احترام کرتے ہیں وہ اِدھر اُدھر اہلے گہلے نہیں پھرتی کہ بقول ان کے:
” ایک جنس کا لیول زمین کی طرف جانے کا ہے اور ایک جب میں پورے کا پورا lowest level سے اوپر اٹھتا ہوں، فٹ بال کی طرح ، تو میری جنس کا یہ لیول ہے۔“
”یہ جو عورت ہے“ کی کہانیوں کے بیشتر مرد اور عورتیں، جنسی کششِ کیمیائی کے اثر میں ہیں تاہم مردوں کا سفر ڈھلوان کا ہے، گرنے کے بعد مسلسل گرے چلے جانے کا۔ جب کہ عورتوں کے حوالے سے یہاں بوقلمونی کا سماں ہے۔ اس spin ہوتی گیند کی طرح، جو ہر بار اچھلنے پر اپنی سمت بدل لیتی ہے یا پھر شعبدہ باز کے اس کھدو کی طرح جو اپنے مالک کی ہتھیلی سے مس ہو کر ہر بار نیا رنگ بدل لیتا ہے۔
اس مجموعے کے پہلے افسانے ”کس کے ساتھ“ کی عورت کو دیکھےے۔ ایک مرد کے پہلو سے غائب ہو کر دوسرے مرد کے پہلو میں نمودار ہو جاتی ہے۔ عورت، اپنے اندر کے رنگ اور چلن بدل لینے والی عورت کچھ ایسی خصوصیات رکھتی ہے کہ اپنی جنس کو lowest level پر تربیت دینے والا مرد مشتعل ہو جاتا ہے اور جب وہ برزخ میں ہکّابکّا بیٹھا ہوتا ہے تو پہیلی بن جانے والی اپنی ہی عورت کے بارے میں سوچے جاتا ہے اور الجھے جاتا ہے۔ اس کہانی میں مرد اور عورت کی قدرے مختلف نفسی جبلّتوں کی نفسیاتی سطح پر تفہیم کی کوشش نظر آتی ہے۔ کیا معاملہ اتنا سادہ ہے جتنی سادگی سے بیان کر دیا گیا ہے ، شاید نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ افسانہ نگار، تین پونڈ وزن اور بارہ ارب خلیوں والا دماغ رکھنے والے مرد کو اس قابل نہیں سمجھتاکہ وہ اپنے سے چار اونس کم وزن کا دماغ رکھنے والی عورت کے گنجھل کو پوری طرح سمجھ سکے۔ یہ گنجھل کیوں ہے، کیسے ہے اور کہاں ہے۔ اس افسانے میں اس کی تِہہ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس افسانے میں وہاں ایک اور کہانی اپنا آغاز پاتی ہے جہاں چوکیدار بجلی کی سی تیزی سے تپائی پر رکھے ہوئے ریوالور کی طرف جھپٹتا ہے اور ریحانہ ”نہیں نہیں “ چیختی مزاحم ہو جاتی ہے۔ کہانی کے بیچ دوسری کہانی میں چوکیدار کو موت کی گھاٹ اتارنے والا مرد، اپنی ہی عورت کی نفرت کے لاوے سے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ یوں عورت ایک نئی گنجھل لے کر سامنے آتی ہے۔
”حاصل جمع “ کی کہانی probability کی گھمن گھیری سے جو net result برآمد کرتی ہے، وہ اپنی جگہ دل چسپ سہی مگر مجھے اس کہانی کے غیر مکلّف بیانےے نے بہت لطف دیا ہے۔
”آٹے کی عورت“ وہ پہلی کہانی ہے جہاں افسانہ نگار سنبھل کر کہانی کے اندر بہ نفسِ نفیس اترتا ہے اور وہاں تک چلا جاتا ہے جہاں عورت اور مرد اپنی اپنی جبلّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ یہاں آٹا گوندھتی آپا رضیہ ہے جو خالص جنس بن جاتی ہے، آٹے کے پیڑے جیسی ، ایک ”مکی“ اور ایک ”تھاپے“ پر پھسل جانے والی، دہکتے تنور کی تپتی دیوار سے گرم گرم اتر کر ایک مرد کی لذت کا نوالہ بن جانے والی۔ سب کچھ کہانی میں نہایت چابک دستی اور سلیقے سے بتایا گیا ہے اور جہاں عورت کی سائیکی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا ہے وہاں مرد کی فطرت کو بھی کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ کیسے ایک بچہ کولہوں پر سوار ” آپا آپا“ کہتے نہ تھکتا تھا اور کیسے شب و روز نگل کر گھبرو بن جانے والا وہی بچہ آپا کو فقط جنس کا استعارہ بنا دیتا ہے۔ کاش افسانہ نگار وہیں تک محدود رہتا جہاں آنسوو ¿ں سے explicit ہوتی آپا کے جذبے جون بدلتے ہیں اور اس کے قدم جنس کی لذیذ طلب سے نڈھال ہو جانے والے مرد کے دروازے پر آہٹ پیدا کرتے ہیں کہ اس کے بعد اس کا گِرنا اپنی عظمت کے فلک سے ذلّت کی پاتال میں گِرنا ہو جاتا ہے جو قاری کو اس کے قریب لے جانے کی بجائے repel کرتا ہے۔ تاہم یہ بھی تو عورت کا ایک روپ ہے کہ اپنے قدموں پر کھڑی رہتی ہے تو آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہے اور جب گِرتی ہے تو وہاں تک گِرے چلی جاتی ہے جہاں تک اِسے گِرانے والا گِرانا چاہتا ہے۔
”مائی بڑھیا کا گھوڑا “ کی عورت یوں مختلف ہے کہ وہ گِرانے اور چبا ڈالنے کا ہنر جانتی ہے۔ ”آٹے کی عورت“ کی طرح اس کہانی کی عورت بھی مرد سے عمر میں بڑی ہے، سات برس بڑی مگر اس سے کہیں مختلف ہے، رشتے بدل جانے سے بڑی عمر کی عورت کیسے مختلف ہو جاتی ہے، ان دونوں کہانیوں کو ساتھ ساتھ پڑھنے سے یہ عقدہ پوری طرح کھُل جاتا ہے۔
”تن من سیس سریز“ کی مائی جنداں بھی ادھیڑ عمر کی ہے، گوشت پوست کا پلپلا پہاڑ۔ مگر اس کہانی کا اصل موضوع عورت نہیں، وہ مرد ہے جو عورت کی طلب میں یوں اندھا ہو گیا ہے کہ اوندھا جا پڑتا ہے۔ ساری عمر خود کو یوسفِ ثانی سمجھنے والے بوڑھے مرد کی روش دیکھ کر قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مرد تو بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اس کی جنس کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔
افسانہ ”قابل“ کا مرد جنس کے کچوکے کھا کر گِرنے والے مراد سے مختلف مرد ہے، بہت مختلف۔ بلکہ وہ مرد ہے ہی نہیں۔ آدمی عمر گزار چکنے کے بعد ماں کے اصرار پر دسویں جماعت کی طالبہ سے بیاہ رچا لیتا ہے تو کہانی کا المیہ کھُل کر سامنے آجاتا ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جو اس معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ کہانی کا اختتامیہ اپنے مرکزے سے گہری وابستگی نہ رکھنے کے باوجود رِستے زخموں کی بھرپور نشان دہی کرتا ہے۔
”دھوپ دیوار“ میں سرے سے کوئی مرد ہے ہی نہیں، وہ مرد جو سہارا بنتا ہے، بن سکتا ہے یا جس سے سہارا بننے کی اُمّید باندھی جا سکتی ہے۔ اِدھر اُدھر جو مرد ہیں، وہ تماش بین ہیں تالیاں پیٹنے والے، ٹوہ میں رہنے والے یا پھر رالیں بہانے والے۔ تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کہانی کی عورت خود مرد بن جاتی ہے۔ ”لاہور جان“ کہانی کی عورت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مرد بن سکے ۔ لہٰذا عبرت کا نشان بنا دی جاتی ہے۔
”جنت ، حور ، قصور“ کے مولوی عبد القدوس کا واسطہ دو عورتوں سے پڑتا ہے، گھر کو جنت بنانے والی عورت سے اور آندھی کی طرح آ کر گزر جانے اور تہس نہس کر دینے والی عورت سے بھی۔ یہاں تک کہ مرد بے بس ہو جاتا ہے اور رو دیتا ہے۔ مرد کا اس کہانی میں رو دینا عورت کو زندگی میں واپس لانے کے لےے ہے جب کہ ”آٹے کی عورت“ کے مرد کے آنسو عورت کو گِرانے اور پامال کرنے کے لےے تھے۔ مرد کے آنسوو ¿ں کی دو سطحوں پر یہ تفہیم بجائے خود دل چسپ ہو گئی ہے۔
”غیرت “ کا عنوان پانے والی کہانی میں جابر مرد کی جہالت کو انتہا پر دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کی فضا میںعورت صرف عورت ہونے کے سبب مرد کے لےے قابلِ نفرت ہوجاتی ہے۔ جب کہانی کی عورت قتل ہو جاتی ہے تو مرد اپنے کےے پر نادم ہونے کی بجائے اسے اپنی غیرت کا تقاضا سمجھ بیٹھتا ہے۔
”بزدل“ کی شمسہ بھی موت سے ہمکنار ہوتی ہے۔ نہانے کی چوکی پر بیٹھی خود پر پانی انڈیلتی شمسہ کو دیکھ لینے والا مرد لمحہ بھر کو نادم ضرور ہوتاہے مگر جلد ہی جنس کے چٹخارے لیتا اور اندھا دھندآگے ہی آگے بڑھنے لگتا ہے۔ حتّٰی کہ ایک عورت اپنی عزت پر اپنی زندگی قربان کر دیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موت کو یوں کھلی بانہوں میں سے گلے لگا لینے والی عورت ہی ہماری تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔
”باری باری سرکار“ کی عورت کی لغت میں عزت کا وہ مفہوم نہیں ہے جو شمسہ کے ہاں ہے۔ اس کہانی کی مس تبسم ایک ہی وقت میں کئی مردوں کو بہلانے کا ہنر جانتی ہے، ایک ساتھ نہیں الگ الگ ۔ ”اُلّو“ کے عنوان سے لکھے گئے افسانے کی مدیحہ بھی ایسی ہی عورت ہے مگر وہ ایک ہی وقت میں کئی مردوں کے بیچ ناٹک رچا سکتی ہے۔ کہ یہی کچھ اسے مرد نے سکھایا ہوتا ہے۔
ایک کہانی جس کا تذکرہ ہونا باقی ہے، وہ ہے ، ”یہ جو عورت ہے“ یہ کہانی اس مجموعے کا عنوان بھی بن گئی ہے۔ اس کہانی کو پڑھنے والے کے سامنے ایک سوال ضرور آکھڑا ہوتا ہے کہ ”کیا یہ افسانہ ہے؟“ یہ ایسا سوال ہے جو گزری دہائیوں میں اسی قبیل کے فن پاروں کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ اٹھا یا جاتا رہا ہے۔ اِتنے تواتر کے ساتھ کہ اب اس میں سے اس کے معنی نفی ہو گئے ہین۔ ”جو ہے، جہاں ہے“ کے اصول پر بہت کچھ قبول کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں افسانے کا بیرونی احاطہ دھندلا گیا ہے۔ اِسی دھندلے احاطے میں ”یہ جو عورت ہے“ رکھ لیجےے کہ اس فن پارے میں فی الاصل کہانی کے خد و خال سے زیادہ اس کا مواد، اہم ہو گیا ہے۔ اس کہانی کا مواس بھی عورت ہے۔ اپنی جنس کے سبب معتوب ہونے والی، sexual exploitation کی شکار بدنصیب عورت۔ وہ عورت جس سے پنڈت رام داس ہو یا فادر جوزف، سنت گرنام سنگھ اور عبدالقدوس سب ہی نفرت کرتے ہیں۔
” یہ جو عورت ہے“ کے افسانے پڑھنے کے بعد مجھے یوں لگا ہے جیسے اس پوری تہذیب کو بچائے رکھنے والی، مثبت قدروں پر اِسے چلانے کے جتن کرنے والی، اپنے قدموں تلے جنت رکھنے والی، ایثار پیشہ اور نیک طینت عورت کی کہانیاں یا تو ابھی حفیظ خان کو لکھنی ہیں یا پھر وہ سقراط کی طرح ڈنڈی مار گیا ہے۔
یہ سقراط کی طرح ڈنڈی مارنے والی بات شاید آپ تک پوری طرح پہنچ نہیں سکی، لہٰذا سقراط کا قصہ بھی سن لیجےے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ایتھنز کے لوگ سقراط سے بحث مباحثہ کے لےے کسی نہ کسی سیانے کو لے کر پہنچ جایا کرتے تھے کہ بحث مباحثہ ہو، وہ تماشا دیکھیں کون جیتتا ہے۔ ایکدفعہ یوں ہوا کہ لوگ ایک ایسے کاروباری شخص کو لے کر اس کے پاس پہنچ گئے جو بہت راست باز تھا۔ سقراط نے پوچھا ”اے شخص ، کاروبار میں راست بازی کیا ہوتی ہے۔“ اس کا جواب تھا۔ ”لین دین ٹھیک ٹھیک کیا جائے، ادھار اور امانتیں وقت اور وعدے پر لوٹا دی جائیں۔“ اب سقراط کی باری تھی، کہا۔ ”بھلے آدمی بعض اوقات درست درست ادئیگی راست بازی کے منافی ہو جاتی ہے۔“ لوگوں نے تمسخر سے قہقہہ لگایا۔ پھر بھنبھناہٹ سنائی دی۔ ”بھلا راست بازی بھی کہیں غلط ہو سکتی ہے!“ سقراط نے کہا ”ہاں! دیکھو تمہیں ایک شخص کو اس سے مانگا ہوا لتھیار لوٹانا ہے، طے شدہ تاریخ آجاتی ہے۔ تم ہتھیار لے کر پہنچ جاتے ہو، حالانکہ وہ شخص ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے ۔ اب اگر تم ہتھیار اس کے ہاتھ میں تھما دو گے تو کیا وہ شخص لوگوں کی گردنیں نہ مارتا پھرے گا۔“
تو صاحبو! یہ جو جنس ہے نا، یہ بھی کہیں کہیں مہلک ہتھیار کی طرح ہو جاتی ہے۔ خصوصاً وہاں جہاں پہلے ہی معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو۔
حفیظ خان نے کہانیوں کے بیچ کہیں کہیں سقراط کی طرح ڈنڈی مارنے کو ترجیح دی ہے تاہم اب شایدکی بہت زیادہ ضرورت ہو گئی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کا ہر ادارہ جنس کی دلدل میںاس معاشرے کو وہاں تک دھکیل دینا چاہتا ہے جہاں سینے پر چڑھی دلدل حلقوم سے آوازیں چھین لیتی ہے۔ جب لکھے ہوئے لفظ ہی نہ رہیں گے تو کیا معنی اور کیا معنی کے نئے نئے پہلو۔ حفیظ خان نے یہ کیا ہے کہ اپنے افسانوں میں دلدل نہیں بنائی۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی مصلحت نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ہو۔ اس نے عورت کی نفسیاتی تہیں کھنگالنے کا جو قصد کیا تھا اس میں بہت حد تک کام یاب رہا ہے۔ عورت کی اتنی بھرپور تصویر ایک مرد ہی بنا سکتا تھا۔
دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب ”نٹنی منم “ کا میرا جی نے اُردو میں ترجمہ کیا تو اس کا دیباچہ کھتے ہوئے سعادت حسن منٹو نے کہا تھا:
”.... سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو قلم بند کرنے والا ایک مرد ہے.... یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لےے کہ عورت خواہ وہ بازاری ہو یا گھریلو، خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا۔ “
حفیظ خان نے اس کی مقدور بھر کوشش کی ہے اور اپنی کہانیوں میں عورت کے بارے میںممکنہ انکشافات کر دےے ہیں۔ یہ کہانیاں زندگی کا سچ ہیں۔ وہ سچ جو کوڑے کی صورت پڑے پڑے تعفن پھیلانے لگتا ہے یا پھر وہ سچ جو حرامی بچے کی طرح ممتا سے محروم ہو کر گھروں کے آنگنوںمیں دبا دیا جاتا ہے۔ مجھے اُمّید ہے، اس سچ کاسامنا کرنے والے ، سارے اسباب و علل سامنے رکھے گے اور زندگی کی ان راہوں پر نکل کھڑے ہوں گے جہاں جنس تعفن نہیں چھوڑتی، خوشبو بن جاتی ہے اور حیات کے تسلسل کی علامت بن جانے کے سبب محترم بھی ہو جاتی ہے۔
(

No comments:

Post a Comment

Followers