Monday, March 2, 2009

یعقوب شاہ غرشین کےافسانے

آخری آنسو اور دوسری کہانیاں
یعقوب شاہ غرشین کےافسانوں کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
کالیاں اِٹاں کا لے روڑ مینہ وَسادے زور و زور
جب میںنے یعقوب شاہ غرشین کا افسانہ ”آخری آنسو“ پڑھا تو طویل خشک سالی کے سبب پورے بلوچستان میںبکھراموت کا سامنظر میری آنکھوں میں سمٹ آیا ۔ یہ وہی منظرتھا جو کچھ عرصہ پہلے ہی میں نے خودا پنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بے کنار دُکھ اپنے دل میںسمیٹ لایاتھا۔ تب سے اب تک ٹی ایس ایلیٹ کی معروف نظم”
THE WASTE LAND“
کے وہ حصے بہت یاد آتے ہیں جن میںپانی باقاعدہ مرتاہوا نظر آتا ہے اور مارتا ہوا بھی:
”۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جوزندہ تھا ‘سومرگیا اور جو زندہ ہیں، سواب مررہے ہیں۔۔۔۔۔ َ“
”آخری آنسو “ کا آغاز ملاحظہ ہو:”ما....ں .... پا.... نی .... “ یہ لق ودق صحراکے وسط میں فاقہ زدہ ماں کی چھیچڑا چھایتوں کو چچوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ایک لاغر بچے کے خشک حلقوم سے نکلی ہوئی آواز ہے جوپوری کائنات کو چیرکر رکھ دیتی ہے .... یوں ، جیسے ایک تیز خنجر بدن کا ماس چیرتاہے: ”ما....ں....پا....نی....“
میں منہ ہی منہ میں تیز تیز دہرانے لگتا ہوں ....
” کالیا ںاِٹا ںکالے روڑ.... “
بارشوں پر مکمل انحصار کرنے والے علاقے کا باسی ہونے کے سبب میں بچپن سے دیکھتا آیاہوں کہ یہاں کے بوڑھے ہوں یا جوان ،مردہوںیا عورتیں اور بچے سب ہاڑی ساونی آسمان کی طرف اپنی اپنی خالی اوک اُٹھاکر پانی کی دعائیں مانگا کرتے ہیں .... پانی برسنے کی یا پھر پانی سے پناہ کی .... کہ بارانی علاقوں میں پانی ہی سب کچھ ہوتاہے.... وقت پر برسے توزندگی عطاکرتاہے۔ بے حساب اور بے وقت برسے یا بالکل نہ برسے توبدنوں کو موت کی پھپھوندی لگ جاتی ہے۔ اِسی منظر کی وسعت اور شدت میں نے بلوچستان جاکر دیکھی اورپہلی دفعہ اندازہ ہواکہ اِدھر کے بارانی علاقوں کا دکھ توکچھ بھی نہیںہے۔ ایک دفعہ پھر ایلیٹ کی لکھی ہوئی سطریں ذہن میں گونجنے لگی ہیں
:Here is no water but only rock Rock and no water and the sandy road The road winding above the mountains which are mountains of rock without water
ایلیٹ نے لکھاتھا :
I see the eyes but not the tears
اور یعقوب شاہ غرشین نے اپنے افسانے کا عنوان رکھا ہے....’آخری آنسو“۔
سرجیمس جارج فریزر کی ”شاخ زریں “ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ دنیا بھر میں بارش کے لیے لگ بھگ ایک سے ٹونے ٹوٹکے کئے جاتے ہیں .... پتھرو ں کو ، دیوتاو¿ں کو ، گیہوں کی بالیوں کو یاپھر خود آدمی کو بھگونا اور آسمان کی طرف اُمید سے دیکھنا ۔اِسی کتاب میں ایک جگہ لکھاہے کہ اٹلی کے ایک فرا نسسکی ولی کو کسانوں نے پالر مو کے خشک ہوتے باغ میں لابٹھا یا تھا۔لکاتا کے ولی سینٹ انجلو کے ساتھ اس سے بھی براہوا ۔اس کے کپڑے نوچ پھینکے گئے اور اُسے مادر زاد ننگا کرکے گھونسے دکھا دکھا کر نعر ے لگائے گئے.... .... ”پانی یا پھانسی “۔ میں نے بچپن میں یہ منظر دیکھ رکھا ہے کہ.... ایک بوڑھی عورت جو سب کو ننگی گالیاں بک رہی تھی‘ لوگ اُسے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پراُ ٹھا کر گلیوں میں گھمائے پھرتے تھے۔ہر گھر کے درواز ے سے اُس پر پانی پھینکا جاتا.... پانی جو ختم ہو رہا تھا.... وہ گالیاں بکتی ۔ننگی گالیاں .... اور پانی پھیکنے والے آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر زور زور سے گاتے تھے
: ”کالیاں اِٹاں کالے روڑ مینہ َوسادے زور و زور “
اور مینہ چھم چھم برسنے لگتاتھا ۔ جب یعقو ب شاہ غرشین نے اپنے اِس افسانے میں لکھا کہ ”موت زندگی پرفتح حاصل کرلیتی ہے“ تو یقین جانیے مجھے سنسان صحرا کے وسط میں اپنے بچے کے ساتھ مردہ پڑی ماں اس عورت کی طرح لگی تھی ‘جس پر چھاجوں پانی برسنا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ یہ ساراپانی اس کے آنسووں کا تھا جو اندرہی اندر برس گئے تھے .... ایک آخری آنسو بچا تھا جو اس کے بیٹے کے خشک حلق میں اتر کر اُسے کچھ لمحوں کی زندگی دے سکتاتھا مگر................، اب میراسینہ بند ہونے لگا ہے ، مجھے اُن لوگوں پر گراہم گرین کی طرح تعجب ہونے لگاہے جو لکھتے نہیں، شاعری اورمصوری نہیںکرتے مگر پھر بھی اس پاگل پن، جنون اورہیبت ناک انسانی صورتِ حال سے فرارکی راہ نکال لیاکرتے ہیں۔ یعقوب شاہ غرشین کی چودہ کہانیوں کے اس پہلے مجموعے کی پہلی تین کہانیاں موت سے مصافحہ کرتی ہیں ۔”آخری آنسو“ میں موت بھیٹر بکریوں کے ریوڑ کو .... مویشیوں کے گلے کو.... سرخ وسپیدسیبوں کو .... رس بھر ے انگوروںکو.... کاریز کے ٹھنڈے اورمیٹھے پانیوں کو .... زرین جان ‘اس کی بیٹی پلوشہ اور بیٹے احمدجان کو نگلنے کے بعد بے بس زینب اورننھے گل جان کو صحرا کی وسعت سے اُچک لیتی ہے۔ یہی موت ” شبِ ندامت “میں ایک مسافر کے وجود سے را ت کے اندھیرے میں ساری حرارت ڈکوس لیتی ہے جبکہ ” کابوس “ میں مقدربن کر آتی ہے.... ایسامقدر جو آدمی کے بخت میںبہر حال لکھا ہوتاہے اور آدمی ہے کہ اپنے مقدر کے لکھے کو بھول کر نا حق اُس سے بھا گتا رہتاہے۔ ”شب ِندامت “ میںجہاںایک ایسی اعلیٰ ظرف اور لمعان نسل کے چل بسنے کی دل دوز خبردی گئی ہے جو گھر کی چوکھٹ پر آئے دشمن کو بھی دوست کی طرح پناہ دیا کرتی تھی وہیں نئی نسل کی بزدلی اور جنس زدگی کا مکروہ چہرہ بھی دکھا یاگیا ہے ۔ یخ بستہ رات کو دروازے پر دستک ہوتی ہے جس کے ساتھ ہی کسی کے زور زور سے سانس لینے کی آوازبھی اندر رسنے لگتی ہے ، سانسوں کا اُتار چڑھا و¿ اور دروازے پر ہلکی ہلکی دستک سے وابستہ ہوجانے والا خوف اور لذت ایک موت پر منتج ہوتے ہیں۔ نیاآدمی یوں جنس زدہ ہوگیاہے کہ تہذیب کے سوپردوں میں رہنے والی جنس اب گلیوں اور بازارو ں میں آگئی ہے، کتابوں ، جریدوں میں اور سکرین پر اسے کھول کھول کربیان کیاجاتاہے اسقدر کہ نیا آدمی اِس سے لبالب بھرگیا ہے۔ اب اگر کسی مجبور کی دستک سے اسی جنس کی لذت کے چھینٹے اڑنے لگیں تو کیا تعجب ہے۔ جہاں تک نئی نسل کی بزدلی کا قصہ ہے تو یہ بات یعقوب شاہ غرشین ہی کو محسوس نہیں ہوئی بہت پہلے دستو فسکی بھی بھانپ گیا تھا، تبھی تو اس نے کہاتھا ”انیسویں صدی کا ہر آدمی بزدل اور غلام ہے۔“ اُس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا: ” ماڈرن آدمی بزدلی اور غلامی کے لیے بنایا اور سنواراگیا ہے۔ اِس زمین پر ہر تعلیم یافتہ آدمی کےلئے یہی قانونِ فطرت ہے کہ وہ بزدل اورغلام ہوتاہے۔ “ اِسی جنس اور غرض کے غلام کو ذہن میں رکھیے .... پرانی بُردبارنسل کو بھول جائیے جو دروازے پر آئے دشمن کو دوست بنالینے کا حوصلہ رکھتی تھی اور”شب ِندامت“ کے واحد متکلم کردار کی بابت سوچئے جس کے بدن میں لذت اور خوف دونوں اُترگئے تھے۔ کیایہ جنس زدہ بزدل شخص مَیں اور آپ تونہیں ہیں جو دوسروںکے مقدر میں موت لکھ دیتے ہیں۔ کہانی” کا بوس “میں موت اگر مقدر ہوکر آئی ہے تو ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دیتی ہے کہ اس سے بھاگنا بانجھ اذیت کے سواکچھ نہیں اور اس کی پناہ میں آجانا ہی پُرلطف عمل ہے۔ سچ پوچھیے تو موت اِس افسانے کے آخرمیں اتنی حسین اوردلکش ہوجاتی ہے کہ اس کی آغوش میںپناہ لینے کو جی چاہنے لگتاہے ۔ ”اعتراف “ ، ” دائرے میں سفر“، ”تلاش“ اور ” پیاسی روح “ ایسی کہانیاںہیں جو افسانہ نگارنے محبت کی پناہ میں آجانے کے بعد لکھی ہیں ۔ محبت ہماری نوجوان نسل کا محبو ب موضوع ہے مگر مجھے دُکھ سے کہنے دیجئے کہ بے تہذیب میڈیا کی یلغار نے اس نسل سے” محبت “ اور” اِشتہا“ میں تمیز کا شعور چھین لیا ہے تاہم یعقوب شاہ غرشین کا مسئلہ اس لااُبالی نسل کی بے توفیق محبت نہیں ہے کہ یہ تو اس محبت کا تذکرہ کرتاہے جودل میں درد کی طرح بسی ہوئی ہوتی ہے ۔ کہانی ” تلاش “ میں کیومینرو کے معبد میں میکورہ اِشی کے اندھے پتھر اور کیورہ اِشی کے محبت کے رازداں پتھر کے درمیاں یہی محبت سعی کرتی نظرآتی ہے اور کہانی ”پیاسی روح “ میں حاتم اور ڈیانا کا سوانگ بھرتی ہے جبکہ ” اعتراف‘ ‘ میں وفا کے چلے جانے کے بعد خالی صوفے پرگراہوا گلاب کا پھول بن جاتی ہے ۔ تسلیم کہ حُسن کا سارا اَسرار فاصلوںمیںہے ۔یہ بھی بجاکہ جو حاصل ہوگیا حسن سے محروم ہوا ، لطف گنوابیٹھا مگر محبت کا معاملہ کچھ اور ہے۔ محبت ایمان کی طرح ہوتی ہے، یہ برتنے سے بڑھتی ہے فاصلوں کی بادمسموم میں یہ مرجھا جاتی ہے اِسے تعلق کی بارشیں او رگرم جوشی کی دھوپیں چاہیں اور ہر مرحلے پر قربانیاں اس پودے کے لیے کھاد کی طرح ہوتی ہیں۔ اوریقین جانیے یہ خودبخود کبھی نہیںہوتی اِسے سیکھنا پڑتاہے۔ اِسے نومَو لود بچے کی طرح پالنا پوسنا پڑتا ہے، تب یہ جوان ہوتی ہے۔ خودبخود ہونے کا شائبہ رکھنے والی محبت کے بارے میں جان لیجئے کہ اوّ ل اول یہ یا تو فقط جنسی کشش ہوتی ہے، حیرت ہوتی ہے، مرعوبیت ہوتی ہے یا فقط دوسرے کو حق ملکیت میں لے لینے کی ہوس ۔ محبت تو اُس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب یعقوب شاہ غرشین اِن کہانیوں میںمحبت کوفاصلوں میں زندہ دکھانے کی سعی کرتے ہیں تو مجھے اُلجھن ہونے لگتی ہے خصوصاََ وہاں جہاں شادی جیسے مشرق کے مستحکم انسٹی ٹیوشن کی نفی ہونے لگتی ہے ۔کہانی ” تلاش “ میں ایسا نہیں ہے ۔یہاں محبت باقاعدہ ایک متھ بن گئی ہے اور کہانی کی آخری سطور تک پہنچتے ہیں تو یہی محبت پورے وجود میں لہوبن کردوڑنے لگتی ہے ۔ ” وہ کون تھا “ ایسی کہانی ہے جو بظاہرنانی اما ںکی سنائی ہوئی لگتی ہے ۔وہی اِنتظار حسین والی نانی اماںکی، ایسی کہانی جودن میں سنائی جائے تو مسافر راستہ بھول جائے۔ اس کہانی کا مسافر بھی راستہ بھولتا ہے۔ ” شبِ ندامت“ میں ایک ایسے شخص کا بیان ہواتھا جِسے پناہ نہیں ملی تھی جبکہ اس کہانی کے راستہ بھولے ہوئے مسافر کو پناہ مل جاتی ہے۔ کہانی ایک اسرار کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور نہ صرف حکمت کے دریچے کھولتی چلی جاتی ہے بلکہ ہمیںاس ماحول سے بھی آگاہ کرتی ہے جو دوسروں کا مان رکھنے والوں کے خلوص او ر محبتوں سے متشکل ہواتھا۔ ایسے میں کہانی جب یہ نتیجہ اخذکرتی ہے کہ کہانیوں کے جھوٹ سچ میں اسلاف کی روحیں متحرک ہوتی ہیں اور یہ کہ یہ روحیں ہم سے خوابوں کی طرح مخاطب ہوتی ہیں تومان لیجیے کہ کہانی کایہ جھوٹ عام زندگی کے سچ سے بھی کہیں زیادہ سچامعلوم ہونے لگتاہے۔ ایک سچ”یتیم کی دعا“ میں بھی بولا گیاہے مگر ” واشگاف “ ہونے کے سبب دل کی کسک نہیں بن سکا ۔اسی طرح کا معاملہ ” دیاسلائی ‘بندراور انسان “ کے علاوہ ”نیاانسان“ کا بھی ہے تاہم ان تینوں کہانیوں میں ”کرافٹ “سے زیادہ ان کا مواد اہم ہوجاتاہے۔ ”بڑھاپا“ ایسے شخص کی کہانی ہے جوزندگی بھر بہت اہم رہا اور جب وہ دوسروں کےلئے فقط ” بزرگ“ رہ گیا توخود کو مصروف رکھنے کے لیے ایک عجب خبط پال لیا یو ںیہ کہانی ایک کردار کاکا میاب نفسیاتی مطالعہ بن جاتی ہے۔ ” صدیوں کی قید“ کے عنوان سے لکھے جانے والے افسانے کا موضوع عمومی سہی مگر دیکھئے تو سہی اس میںیعقوب شاہ غرشین نے کس طرح ایک مظلوم کردار کو جیتا جاگتا بنا دیاہے۔جس طرح وہ بی اماں ملالئی کا حلیہ بیان کرتا ہے وہ پڑھنے والے کے دل پر نقش ہوجاتا ہے۔ ایک بوڑھی عور ت جس کاچہرہ جھریوںسے بھراہواہے، جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ہیں‘ جو بولتی ہے تو اس کے منہ سے سیٹیاں نکلتی ہیں اور جس کے ہاتھ بطخ کے پاو¿ں جیسے ہیں۔ ایسی عورت جو کبھی حسین تھی مگر اب ایسی کریہہ صورت ہوگئی ہے‘ کہانی ختم ہونے پر کیسے معدوم ہوسکتی ہے۔ وہ زندہ رہتی ہے اور پڑھنے والے کے وجود میںاترجاتی ہے۔ تاہم کردار نگاری یعقوب شاہ غرشین کے ہاں عمومی طورپر توجہ حاصل نہیں کرسکی کہ اسے تو اپنی بات کی تصویریں بنانے سے کہیںزیادہ اس کی للک رہی ہے کہ کچھ سوال اُٹھائے جائیں ،موت اورزندگی کا سوال ، مجبوری اوراختیار کا سوال، محبت اور تہذیب کا سوال،نئے آدمی اور پرانے آدمی کا سوال۔ یہ سب سوالات مل کر اُس کے افسانے کو اہم بنادیتے ہیں ۔ کہتے ہیں ایتنھز کے شمال میں واقع یونان کے قدیم شہر THEBESکے جوار میں SPHINXکا ڈیرہ تھا۔ اس کا سرعور ت اورجسم شیر کا تھا۔ سفنکس راہ روک کربیٹھی رہتی اور ہر آنے جانے والے سے زندگی کی بابت سوالات کرتی تھی ....یہ سوالات زندگی کے مراحل کے بارے میں ہوتے۔ کہانی کا معاملہ بھی کچھ ایساہی ہے یہ ازل سے ہماری راہ روک کر کھڑی ہے۔ عورت کی طرح حسین مگر شیر کے جگر والی ۔۔۔اور اس کے سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی ان کا ڈھنگ سے جواب نہیں دے پاتا ۔ سفنکس نے اعلان کر رکھا تھا کہ جوکوئی اسے درست جواب نہ دے پائے گا، موت اس کا مقدر ہوگی ۔ ہوتا یوں تھا کہ جو بھی اُدھر سے گزرتاتھا اپنی جان سے ہاتھ دھوتاتھا ۔ کہانی کے مقابل ہونا دراصل زندگی کے ُان سوالات کے مقابل ہونا ہوتاہے جن کے جواب ہمیں نہیںسوجھتے ۔میں سمجھتاہوں کہ جوافسانہ نگار ان سوالا ت کو بڑا مان کر انہی کاہوجاتاہے .... تَن مَن دَھن سے.... اس کی کہانی نئی زندگی پالیتی ہے۔ اور جو OEDIPUSکی طرح ان کے جواب دینے بیٹھ جاتاہے اس کی کہانی خودکشی کرلیتی ہے........، ذراپلٹ کر دیکھئے تو ........ گذشتہ ربع صدی سے پہلے خودکشی کرنے والی کہانی کی نعش سے کیا ابھی تک سڑاندنہیں اُٹھ رہی ....! اب تسلیم کر لیا جانا چاہیے کہ گذشتہ ربع صدی میں کہانی زندگی اور زندگی کے سوالات سے جڑکر زیادہ تو انااور زندہ ہوگئی ہے اورمجھے کہہ لینے دیجئے کہ اس میں نئی نسل کے لکھنے والوں نے بہت اہم کردار ادا کیاہے ۔ یعقوب شا ہ غرشین بھی افسانہ نگاروں کی اِسی باکمال پیڑھی سے تعلق رکھتاہے۔ وہ فکشن کے حوالے سے معروف شہروں سے دوررہتے ہوئے بھی افسانے کے مزاج میں درآنے والی تبدیلیوں سے خوب آگاہ ہے ۔ وہ زندگی کو درپیش سوالات کو کہانی کے مقابل لاکھڑا کرنے کا حوصلہ اور ڈھنگ رکھتاہے۔ اس کے ہاں تخلیقی منہاج اور انفرادی تجربہ دولخت نہیں ہوتے آمیخت ہوجاتے ہیں یہی سبب ہے کہ اپنی تخلیقی زندگی کے عین آغاز ہی میں وہ انتہائی اہم کہانیاں لکھ کر قابل توجہ افسانہ نگار بن گیا ہے ۔

No comments:

Post a Comment

Followers