Monday, December 31, 2012

رخشند ہ کوکب اور عورت کا مقدمہ


رخشند ہ کوکب اور عورت کا مقدمہ


’’شام سے پہلے آنا ‘‘ میں رخشندہ کوکب کا خوب صورتی اور نزاکت سے تراشا ہوا الہڑجیا کا کردار کہیں سے بھی باغی عورت کا کردار نہیں ہے لیکن وہ شاہ جہاں سے شادی سے انکار کر دیتی ہے۔ زندگی کو خواب کی طرح دیکھنے اور اس میں ان دیکھے رنگوں کے حسن کو پالینے کی جستجو نے اس کے قدموں کو لہولہان اور اس کے جسم کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی کہانی کا ایک اور وجیہہ کردار شاہ جہاں آخر کار اس عورت کو مکمل تباہی سے بچا لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ رخشندہ کے دوسرے ناولٹ ’’تیری جستجو میں بہار ہے‘‘ کا نسائی کردارگل بھی اتنی ہی ریاضت اور سلیقہ مندی سے تراشا گیا ہے ۔ تاہم گل کی کہانی میں عورت کو مکمل تباہی سے بچالینے والا مرد عیسی ہے جو ادھر مغرب میں ہی پلا بڑھا ہے۔ عیسی کی ماں اپنے بیٹے کی شادی اپنی بہن مریم کی بیٹی سارہ سے کرنا چاہتی تھی ۔ اگرچہ معاہدے کے تحت عیسی کے ماں باپ نے بیٹے کو اپنی مرضی سے مذہب منتخب کرنے کا اختیار دے رکھا تھا لیکن ہوتا یوں ہے کہ عیسی خود بخود اپنے مسلم پاکستانی باپ کے نقش قدم پر چل نکلتا ہے اور اپنے باطن کو مشرقی رشتوں کی روح سے ہم آہنگ کر لیتا ہے۔
رخشندہ کوکب کی دونوں کہانیوں کا دوسرا مرد گمراہ اور حددرجہ کمینہ ہے۔ دونوں کہانیوں میں عورت کا کردار لگ بھگ ملتاجلتا ہے ۔ دونوں ایک سانادرست فیصلہ کرتی ہیں۔ پہلی کہانی میں اپنے نئے پن کی تاہنگ سے جڑ کر جبکہ دوسری کہانی میں اپنے قانونی اختیار کو حد سے بڑھی ہوئی سعادت مندی کی آگ میں جھونک کر۔ دونوں کہانیوں میں عورت اگراس غلط فیصلے سے بچ جاتی توان سب دکھوں سے کنی کاٹ کر نکل سکتی تھی جو دونوں مردود مردوں نے ان پھول جیسی لڑکیوں کی جھولی میں ڈالے ہیں ۔ دونوں کہانیاں اس لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہیں کہ ادھر کا شاہ جہاں اور ادھر کا عیسی‘ مردوں کے وقار کوآخر کار بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
رخشندہ کوکب کے ناولٹ میں مہجری منظرنامے نے کہانیوں میں قاری کی دلچسپی کو دوچند کردیا ہے۔ اگرچہ کئی ایسے مقام آتے ہیں جہاں واقعہ ساکت ہوجاتا ہے اور فنکار کا قلم رواں رہتا ہے‘ اور ایسے بھی مقام آتے ہیں جن کا براہ راست افسانے کے موضوع سے تعلق نہیں بنتا ‘مثلا محبت اور اس کی ابتلا کی ان کہانیوں میں سیاسی اور معاشی صورت حال پر تبصرہ‘ تاہم یہ سب مل کر کہانی کی فضا بنا دیتے ہیں اور ان کہانیوں کی زمانی تعیین بھی کر دیتے ہیں ۔
رخشند ہ کوکب نے ’’شام سے پہلے آنا‘‘ اور ’’تیری جستجو میں بہار ہے‘‘‘ میں اپنے ڈھنگ سے‘ عورت کا مقدمہ لکھ دیا ہے ۔ لیجئے مجھے یہاں تہذیبی عورت کا مقدمہ لکھنا چاہیئے تھا کیوں کہ یہ اس عورت کا مقدمہ ہے ہی نہیں جو نام نہاد روشن خیالی کا پھریرا اٹھا کر اپنی اقدار سے برگشتہ ہو چکی ہے ۔ یہ دونوں ناولٹ اہلے گہلے پھرنے والی‘ بے سمت اور اپنی جڑوں سے اعتنا نہ رکھنے والی عورت کا مقدمہ ہو ہی نہیں سکتے اور نہ ہی کسی ایسی عورت سے کوئی مطالبہ رکھتے ہیں جس نے مشرقی رشتوں کی پاکیزگی کو جھٹک دیا ہو اور وہ بدن کے ڈھلک جانے والے ماس کے مان اور اسی ماس کی ابلہی کارگزاری کی اکڑنت کے بھرے میں مبتلا ہوگی ہو۔ یہ دونوں ناولٹ تہذیبی عورت کا مقدمہ ہوکر یوں اہم ہو گئے ہیں کہ صارفیت زدگی کی زد پر آئے عہد میں کہ جس میں خاندان ٹوٹتے چلے جارہے ہیں‘ دونوں کہانیاں مادیت سے کنی کاٹ لینے اور مرد اور عورت کے پاکیزہ رشتوں کو اخلاص کی بنیاد پر پھر سے استوار کرنے پر اکساتی ہیں ۔

محمد حمید شاہد
اسلام آباد/۲۶ نومبر ۲۰۰۸

پرویز انجم کی کہانیاں

  پرویز انجم کی کہانیاں: ایک تاثر

اردو افسانے پر ایک ایسا زمانہ بھی ہوگزرا ہے کہ تخلیق کاروں کے پاس جیتے جاگے کردار نہ رہے تھے۔ کہانیاں لکھنے کا دعویٰ رکھنے والے’’وہ‘‘ ’’میں‘‘ ’’ تم ‘‘ سے کرداروں کے ہیولے بنا بناکر افسانے کے نام پر انشائیے تراشتے اور کام چلا لیاکرتے ۔ یہی وہ غیر تخلیقی رویہ تھاجس نے کہانی اور قاری کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کر دی تھی ۔ پرویز انجم کے افسانوں کی بنیادی خوبی یہ بنتی ہے کہ حاشیے سے بھی باہر نکل جانے والاکردار‘ زندگی کی ساری ہماہمی کو لے کر عین متن کاحصہ ہو گیا ہے اور کہانی کی روح بن کر قاری سے مکالمہ کرنے لگا ہے ۔ ماننا ہوگا کہ جسے اپنے کرداروں کو سوچنابنانا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے متحرک کرنا آتا ہو و ہی اپنے قاری سے کلام کا استحقاق رکھتا ہے اور اسی پر کہانی کا سلیقہ اور بھرپورپن کھل سکتا ہے۔ اگر ایسے میں صاف ستھرا بیانیہ بھی دست رس میں ہوتو سونے پر سہاگہ‘ کہ ایسے میں وہ ڈھنگ کا افسانہ بھی لکھ سکتا ہے۔ پرویز انجم کا شمار ایسے ہی خوش بختوں میں ہوتا ہے۔ ’’مونگرے کے پھول‘‘ ’چوبارے والی لڑکی‘‘ ’مسلے ہونٹ‘‘’’کلیان پور‘‘ ’’مہاجر پرندے‘‘ ’’کنگن کی کھنک‘‘اور ’’جہاں ٹیپو گِرا تھا‘‘ جیسے افسانوں کا جہاں پلاٹ پختہ اورکہانی گتھی ہوئی ہے‘ وہاں بیانیہ رواں اور تخلیقی ہے ۔ اس رس دار بیانیے نے کرداروں میں زندگی کی ہمک اور لذت بھر دی ہے ۔ دہشت ‘تقسیم‘ اجنبی مہجری منظرنامہ میں محبت ‘گزر چکے وقتوں کی تیزدھار یادیں اور تاریخ کا جبر‘ یہ سب کچھ پرویز انجم کی کہانی میں بطورmotif یوں آتے ہیں کہ بیانیہ تھم تھم کر اور پھیل پھیل کر چلنے کے باوجود قاری پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دیتا ۔ اسی برتے پر میں امید کر سکتا ہوں کہ یہ کہانیاں اپنے پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ بنا لینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
محمد حمید شاہد
اسلام آباد

بشریٰ جمال کے افسانے اورعورت کا مقدمہ


بشریٰ جمال کے افسانے اورعورت کا مقدمہ

میں نے بشریٰ جمال کے واقعے پر انحصار کرنے کی بجائے وقوعے اور سانحے کو معنویت کے اسراع سے اُجال دِینے والے افسانوں کو پڑھا ہے اور سوچ رہا ہوں کہ یہ جو سعادت حسن منٹو نے دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب ’’نٹنی منم ‘‘ کے میراجی کے اردو ترجمہ کے دیباچہ میں شدیدجملے لکھ دیے تھے‘ توآخر کس جھونک میں آکر اور کس ترنگ میں لکھ دیے تھے؟
سعادت حسن منٹو نے کہا تھا:
’’۔۔۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ اِن تمام باتوں کو قلم بند کرنے والا ایک مرد ہے۔۔۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لیے کہ عورت خواہ وہ بازاری ہو یا گھریلو، خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا۔ ‘‘
اصولاًمجھے راست بشریٰ جمال کے افسانوں پر بات کرنی چاہیے مگر اس کا کیا کیجئے کہ خود بشریٰ نے سیدھے سبھاؤ کہانیاں لکھ کر الگ ہوجانے پر اِکتفا نہیں کیا ہے۔ اس نے‘ اگر ڈھنگ سے آنکا جائے تو‘ محض کہانی لکھنے پر عورت کا مقدمہ لکھنے کو ترجیح دِی ہے ۔ اُس عورت کا مقدمہ جو ہمارے ہاں یا تورواج کے کئی شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے یا پھریوں آزاد ہے کہ بس دِکھنے کی شے ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔بنی سنوری ‘سجی سجائی ۔۔۔ پہلے مہندی‘چوڑی ‘چوٹی ‘مسی اور رنگین چولی چنری تھی اب اِمپورٹیڈ باڈی لوشنز‘ نئے نئے پرفیومز‘ ویکسنگ اور پفنگ کے بعد بلش آن اور کاسمیٹکس۔۔۔تو یوں ہے کہ اِسے دِیکھے جانے کے لیے تیار ہونا ہے ۔ پہلے بھی ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔۔۔ دِیکھو اور دِیکھے جاؤ ۔ ادھرترقی یافتہ معاشروں میں یہ دِکھنے والی ’’شَے‘‘اپنے اِس’’ منصب ‘‘سے معزول نہیں ہوئی۔ بس وہاں یہ فرق پڑا ہے کہ اسے بے آڑاورمکمل دِیکھنے کے لیے لباس تک کے بوجھ سے آزاد کرالیا گیا ہے اور ساتھ اس سراب کی فضا بھی باندھ دی گئی ہے کہ اس باب میں اسے خود مختیار رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف اسی سماج میں یہی عورت جو رشتوں کے بوجھ کو بھی جھٹک بیٹھی ہے اس پر مزید معاشی بوجھ لادکر اسے اس باب میں مرد کی برابری کا مرتبہ فضلیت عطا فرمادیا گیا۔ بشریٰ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے میں نے اس مقام فضیلت کی عطاکو ایک دھوکے طور پر شناخت ہوتے پایا ہے۔
لیکن ٹھہریے صاحب کہ مجھے بشریٰ کی کہانی پر ڈھنگ سے بات کرنے سے پہلے‘ یہ جو منٹوکے اوپر درج ہوجانے والے شدید جملوں نے روک رکھا ہے‘ اس سے نمٹ لینا ہو گا۔ آخر عورت کے بارے میں ڈھنگ سے مرد ہی کیوں لکھ پاتا ہے؟ (اگر منٹو کا دعویٰ درست ہے تو؟) اور عورت پر مصیبت کا کیا آسمان ٹوٹ پڑاہے کہ وہ اپنے بارے میں سچ لکھنے سے کتراجاتی ہے۔ ممتاز مفتی نے تو اس باب میں یہ کہہ کر‘ کہ عورت دِکھنے پر یقین رکھتی ہے‘لہذا اپنا وجود اجالتی ہے اور اپنے وجود کی گہرائی میں اترنا اس کا چلن ہے ہی نہیں ‘ اپنے قلم کا رخ رنگ رس اچھالتی عورتوں کی طرف موڑ دیا تھا مگر میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اِس باب میں بشریٰ جمال کے افسانے پڑھ کرفکشن کے ان دونوں بابوں سے الگ‘ وہاں جا کھڑا ہوا ہوں جہاں بشریٰ ہے ۔۔۔اپنے پورے وجود سمیت۔۔۔ وہاں ‘جہاں عورت محض دِکھنے کی شے ہے نہ روایات کی اسیر ۔ اِس علاقے میں دامودر گپت کی نٹنی منم کا وجود‘ منٹو کی سفاک نگاری اور مفتی کا لذت بھرا چسکا سب کچھ قضا ہو جاتا ہے ۔ مجھے بشریٰ ٰ کے افسانوں نے جس علاقے میں پہنچا دیا ہے وہاں عورت اپنے وجود کے ساتھ موجود ہے مگر لطف یہ ہے وہ محض جسم نہیں ہے اس کے کندھوں پر سر بھی ہے جو سوچ کے نور سے اسے الگ دھج سے اجال رہا ہے :
’’میں نے حیران ہوکر پوچھا اور دیکھا:
وہ تنہا نہ تھی اس کے گرد تو انسانوں کی باڑ تھی ۔ وہ ننگے سر عورتوں ‘ ننگے پاؤں مردوں ‘ اور ننگ دھڑنگ بچوں کے درمیان تھی۔
جن کو قانونی تحفظ کی ضرورت ہے باڑ کی نہیں۔
اب میں نے کن اکھیوں سے اپنے گرد لگی باڑ کو دیکھا اور سوچا:
میں جس چاردیواری میں ہوں ‘وہ کیا ہے؟
وہ جو سرعام ہے ‘ کہاں ہے؟
اس کے پیچھے جلوس اور پتھر ہیں
میرے پیچھے خوف اور تن آسانیاں۔
وہ باعمل ہے ‘میں تختہ مشق۔
جلوس قریب پہنچ رہا تھا
اب مجھے ان کا ڈر نہ رہا‘اپنا پڑ گیا تھا۔ مجھے میرا ضمیر مار رہا تھا۔
جو دوسروں کے ضمیر کی شکار تھی ‘مطمئن تھی
جلوس ہم دونوں کو گھیر چکا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی :
حق ملتا نہیں لیناپڑتا ہے۔ انصاف ہوتا نہیں کروانا پڑتا ہے۔‘‘
(افسانہ :تحفظ)
اندر والی عورت ہو یا باہر والی ‘دونوں کو اس سماج میں بطور انسان احترام پانا ہے ۔ بشریٰ کی کہانی اسی بنیادی قضیے کو لے کر چلتی ہے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے ‘ تیز اور تیکھے جملوں کے ساتھ۔ یہ سوئے ہوئے انسانی وجود پر ٹہوکے لگانے والے اور ٹھہری ہوئی سوچ کو مہمیز لگانے والے جملے واقعے کا التباس پیدا کرتے ہیں ۔ ایسا التباس جو محض اور صرف ایک کہانی کاواقعہ نہیں رہتا انسانی تاریخ پر بیتنے والا سانحہ ہو جاتا ہے۔
بشریٰ کی کہانیوں میں تیز آہنگ سے بہتے سوچ کے چلن نے جس عورت کو کاغذ پر اتارا ہے وہ اس عورت سے بہت مختلف ہے جو ہمارے افسانے میں لذت ہو جاتی رہی ہے ۔۔۔بقول ممتاز مفتی مٹھائی کے اس تھال کی طرح جو حلوائی باہر سجا دیتا ہے ۔
بشریٰ کی کہانیاں اگر محض لذت نہیں ہیں تو وقت گزاری کا مشغلہ بھی نہیں ہیں کہ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور انسانی دکھوں ‘ مجبوریوں اور نارسائیوں کو عورت کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔یہاں مجھے julia kristeva کی بات یاد آتی ہے ۔ اس نے زور دے کرکہاتھا : "By women , I mean that which con't be represented." اور یہ بھی‘ کہ عورت کو جاننے کا دعویٰ کرنے والوں کو مان لینا چاہیے کہ عورت تو وہ ہے جو بیان سے باہر ہے جوکسی بھی نظریے اور تعریف سے بلند ہے ۔
بشریٰ جمال کا یہ چلن مجھے اچھا لگا ہے کہ اس نے بیان سے باہر رہ جانے والی عورت کو کہانی کے تخت پر بٹھانے کے جتن کیے ہیں تاہم اس باب میں ابھی کرنے کا بہت کام ہے ۔ جس طرح کا سفاک جملہ لکھنے کا حوصلہ بشریٰ کے پاس ہے اور جس سلیقے سے وہ اپنے حق میں فضا بنا لیتی ہے اور جس سہولت سے وہ اپنی بات کہہ جاتی ہے ‘ اس سے امید بندھنی چاہیے کہ وہ اس باب میں بہت آگے تک اور بہت دور تک جا سکتی ہے ۔


محمد حمید شاہد
  اسلام آباد

خواب اور حقیقت کے جھٹپٹے میں


خواب اور حقیقت کے جھٹپٹے میں
َّّّ______________ساجد گل کے ناول کا دیباچہ محمد حمید شاہد کے قلم سے

ساجد گل کی شاعری کو پڑھ کر میں پہلے ہی اسے ایک تہذیبی آدمی کے طور پر شناخت کر چکا تھا، ایک ایسا تہذیبی آدمی، جو اپنے ماضی اور اپنی روایت سے بہت گہرا رشتہ استوار رکھے ہوئے ہے ۔ کہانی ایک سلطنت کی، تک آتے آتے ، مجھے یوں گمان ہونے لگا ہے کہ ہو نہ ہو ساجد گل میں بیتال پچیسی والے راجہ بکرم سین کی روح اور طاقت سمائی ہوئی ہے۔ میرے دھیان میں راجہ بکرم سین یوں آیا ہے کہ اس کے ذریعے گوداوری دریا کے کنارے آباد پرتشتھن سلطنت کے تخت کے مالک کے ساتھ دانش کو جوڑ دیا گیاتھا۔ ساجد گل کی سلطنت کی کہانی کا بنیادی تنازع بھی یہی دانش ہے ۔ کہانی ایک سلطنت کی، میں راج دیوتا کی مدد سے اپنے باپ کو مروا کر تخت ہتھیا لینے والا عاقبت نااندیش بادشاہ اُس دانش کے معاملے میں تہی دست ہے جو ہماری داستانوں میں شاہوں کا وتیرہ ہوا کرتی تھی ۔ یوں دیکھیں تو یہ کہانی ماضی سے جست لگا کر موجود میں قدم رکھتی اور ہمارے حال سے بامعنی مکالمہ کرتی ہے ۔
میں اس پر اصرار نہیں کروں گا کہ ساجدگل نے اپنی کہانی کے ہر کردار کے لیے کوئی نہ کوئی علامتی ذمہ داری ادا کرنے کا وظیفہ مقر ر کر رکھا ہے تاہم کہانی کے مرکزی کرداروں کے باب ہم ایسا وثوق سے کہہ سکتے ہیں ۔ ۔۔ لیکن ٹھہریے صاحب ، مجھے عین آغاز میں ہی قصہ کہانی اور داستان کی روایت کو ایک طرف دھر کر یوں نہیں سوچنا چاہیے ۔ جب سے ہماری کہانی کے چلن بدلے ہیں وہ تاریخ اور سیاسی اتھل پتھل کے زائیدہ واقعات کی ترتیب کی لاٹھی ٹیک کر چل پاتی رہی ہے ۔ اس کا اچھا یا برا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ایک زمانے میں داستان کہنے والوں کے ہاں کرشمہ دکھانے والی تخئیلی قوت ہمارے زمانے تک آتے آتے اس طرح لائق اعتنا نہیں رہی ہے ۔ بل کہ یوں کہہ دینا ہوگاکہ اس پر سے ہمارا ایمان اٹھ گیا ہے۔ ۔۔ ہمارے اٹھے ہوئے اور ماضی سے برگشتہ اس ایمان سے ساجد گل کی کہانی کوئی معاملہ نہیں کرتی۔ تو یوں ہے صاحب کہ یہ کہانی پڑھنے، اور اس سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے ، ہمیں جدید فکشن کے تعصبات کو بہر حال کچھ وقت کے لیے ایک طرف رکھ دینا ہوگا۔
جدید فکشن کے ہنگامے میں ساجد کایہ تخلیقی اورتخئیلی حیلہ مجھے یوں اچھا لگا ہے کہ اس طرح،اس کہانی میں، ماضی کے سرس کے پیڑ سے بندھی مضبوط رسی سے لٹکی جو لاش کھول کرساجد اپنے کندھے پر اٹھا لایا ہے وہ تعفن نہیں چھوڑتی ، کہ وہ جی اٹھی ہے اور بولتی بھی ہے۔ ایک دفعہ پھر دھیان میں راجہ بکرم سین آگیا ہے ، وہی جو شانت شیل جوگی کے دیے ہوئے پھل بے اعتنائی سے اپنے خزانچی کو دے دیا کرتا تھا ۔ اور خزانچی یہ جانے بغیر ،کہ ہر پھل میں ایک رتن ہے ،کھڑکی سے خزانے کے اندر لڑھکا دیا کرتا۔ ساجد کی شاعری پڑھتے ہوئے لگ بھگ اسی نوع کی بے اعتنائی سے میرا واسطہ رہا ہے تاہم اس کہانی کی وساطت سے میں اس راجہ بکرم سین سے ملا ہوں جس پر ان رتنوں کا بھید کھل چکا ہے۔
کہانی ایک سلطنت کی، کے بادشاہ کے پاس جس دانش اور جرات کو ہونا چاہےئے تھا ، وہ کہانی کے دوسرے کرداروں کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ کردار آقا بالان، خوکام ،دارا،اناجیل،زولی اور سابل کے ہیں ۔ کہانی پڑھتے ہوئے میری ساری توجہ دارا اور اس کے بیٹے اناجیل نے کھینچے رکھی ہے ۔ اگرچہ کہانی میں کرداروں کے ناموں کو نامانوس رکھنے کی شعوری کوشش ملتی ہے تاہم دارا اور اناجیل اپنے خالق کو غچہ دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ کہانی کے دارا کو پڑھتے ہوئے ، آپ چاہیں نہ چاہیں اس نام سے وابستہ تاریخ اس کی قامت کا حصہ ہو جاتی ہے ۔ ایک دارا تو وہ تھا جو گومتا کے قتل کے بعد تخت پر بیٹھا تھا تو اس نے ساری بغاوتوں کو کچل کر رکھ دیا تھااور جس نے ایشیائے کوچک،شمالی یونان ، عرب ، افغانستان اور ہمارے ہاں کے پنجاب اور سندھ کے علاقوں کو بھی ایرانی سلطنت کا حصہ بنالیا تھا۔ دوسراتاریخی کرادار جو ساجد کی کہانی کے اس کردار کی معنویت کو تقویت دیتا ہے ،وہ اردشیر کے تخت پر بیٹھنے والا دارا ہے ۔ وہی جو اتنی ہمت والا تھا کہ سکندر اعظم کی فوجوں سے ٹکرا گیا تھا۔ اس کردار کو پڑھتے ہوئے مغل شہنشاہ شاہجہان اور ممتاز محل کا بیٹا داراشکوہ بھی دھیان میں رہتا ہے جو تصوف اور ویدانت کا شیدائی تھا اور جس کی شہادت کی انگلی میں ایسی انگوٹھی ہواکرتی تھی جس پر249249 اوم،، کندہ تھا۔ اگرچہ ساجد کا دارا ان کرداروں کا چربہ نہیں ہے مگر کہانی کی مجموعی فضاان ہی کی جیسی جرات، دانش اور داراشکوہی تصوف کے مظاہر سے متشکل ہوتی ہے۔
چودھویں رات کی دودھیا چاندنی میں،خوب چڑھے ہوئے دریا کے عین بیچ ابھرتے،تیرتے انتہائی مرصع تخت پر براجمان روشن پیشانی والے دیو مالائی کردارکا سونپا ہوا فریضہ، اٹھارہ برس کا ہوتے ہی ،جس کردار کوادا کرنے کے لیے نکل کھڑا ہونا تھا،وہ اناجیل ہے۔ جی،کہانی کا مرکزی کردار اناجیل، جو دارا جیسے پرشکوہ کردار کا بیٹا ہے۔ کہانی کے عین آغاز میں جس طرح اناجیل جس ماورائی جہت کی طرف لپکتا ہے، کہانی کے تیسرے حصے میں خود اسی کا حصہ ہو جاتا ہے ۔مر کر بھی نہ مرنا، اپنے ہمزاد عقاب کو اپنے وجود میں اترتے دیکھنا اور اس تخت پر براجمان ہوجانا جس کے گرد مچھلیاں،تتلیاں اور پریاں ناچتی ہیں، یہ سب کچھ کہانی کے اس کردار کے گرد ایک روشن ہالہ بنا گیا ہے ۔ ایسے کردار اگرچہ ہمارے مشاہدے کا حصہ نہیں ہیں تاہم ہماری داستانوں کے مرغوب کردار ہونے کی وجہ سے ہمارے لاشعور کا حصہ رہے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ انجیل متی ،انجیل مرقس،انجیل لوقااور انجیل یوحنا میں سے پہلی تین کو اناجیل خلاصہ کہتے ہیں ۔ ساجد کا تراشا ہوااناجیل کا کردار بھی ایک سطح پر مرصع تخت والے، دارا،آقا بالان اوراوتاد بابا جیسے روشن کرداروں کا خلاصہ ہے اور ان کی توسیع بھی ۔
میرا خیال ہے کہ مجھے اس کہانی کے کرداروں کے حوالے سے اپنی بات کویہیں روک لینا چاہیے کہ اس طرح تو کہانی کھل جائے گی جب کہ مناسب یہ ہے کہ آپ کہانی کے سحر میں اس کے بیانیہ کے وسیلے سے اتریں ۔ کرداروں کا قصہ تو میں نے یوں چھیڑا تھا کہ اس کہانی کی بدلی ہوئی فضا کے بارے میں آپ کوچوکنا کردوں اور بتادوں کہ اسے پڑھنے اور اس کی معنویت کو پانے کے لیے عصری سانحات سے نتھی مزاج اور کیفیت کی نہیں بل کہ داستان کی تہذیب اور روایت سے آگہی کی ضرورت ہو گی ۔
صاحب میری اس بات سے یہ گمان مت باندھ لیجئے گا کہ اس میں اپنے عصر سے جڑا ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتاتو یقین کیجئے کہ یہ تحریر میرے لیے قطعا لائق اعتنا نہ رہتی ۔ جنسیت اور مارکیٹ اکانومی کیسے سامراج کا ہتھیار بنتی ہیں ، سپہ سالاروں کی وفاداریاں کیسے خریدی جاتی ہیں اورقوموں کو مقروض کرکے کیسے غلام بنایا جاتا ہے ،مذہب کیسے بدنام ہوتا ہے اور عالی شان مملکت کوحکمرانوں کی نادانیاں کیوں کر دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں ،یہ سب کچھ اور بہت کچھ ساجد گل کی اس کہانی کا حصہ ہو گیا ہے اور ساجد کا کمال یہی ہے کہ اس نے اجنبی اور دیومالائی فضا اور کرداروں کی مدد سے جس کہانی کو لکھا ہے اس کے سارے تنازعات ہمارے اپنے قومی اور عصری آشوب کی تفسیر ہو گئے ہیں ۔ اوپر، جب میں اناجیل کے حوالے سے، چودھویں رات کا ذکررہا تھا تو میرے ذہن میں وہ چودھویں رات تازہ ہو گئی تھی جب بیتال پچیسی والا راجہ بکرم سین اپنا وعدہ نبھانے اپنے محل سے نکلا تھا ۔ بیتال کی ایک کہانی میں مدن سندری کا شوہر اور بھائی دھاول دیوی پرقربان ہونے کے لیے اپنی اپنی گردنیں کاٹ ڈالتے ہیں ۔ یہاں یہ قصہ یوں یاد آیا ہے کہ جب مدن سندری نے دیوی جی کا فرمان سنتے ہی کٹے ہوئے سر بدنوں سے جوڑ دیے تھے ، عجلت میں شوہر کا سر بھائی کے بدن پر اور بھائی کا سر شوہر کے دھڑ پر، تو راجہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا کہ مہاراج بتائیے تو ان دونوں میں سے مدن سندری کا اصل شوہر کون ہے ؟ وہ جس کے دھڑ پر مدن سندری کے شوہر کا سر لگاہے یا وہ جس کابدن اس کے شوہر کاہے ۔ ساجد نے بھی ادبدا کر اپنی ماورائی ماحول بناتی اس قدیم کہانی کے بدن پر جدید سوچتا ہوا سر نصب کر دیا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس باب میں قاری کیا فیصلہ کرتا ہے، اس فن پارے کو اپنے ہئیتی مزاج کی مناسبت سے داستان کہتاہے یامتن میں جدید حسیت کے رواں دھارے کو دھیان میں لاکر ناول قرار دیتا ہے ۔ مجھے تو ساجد گل کی 249249کہانی ایک سلطنت کی ، داستان اور ناول ،خواب اور حقیقت کے ساتھ ساتھ تحیّر اورتنبُّہ کے جھٹپٹے میں تخلیق ہونے والا ایسا کھولتا ہوا سوال شرارہ لگتی ہے جس کا جواب ہمارے قومی شعورپر قرض ہے۔۔ اور جس کے جواب کی تاہنگ ہمارے بدنوں میں گہرائی تک سرایت کرگئی بے حمیتی اور کسالت کو خاکستر کرکے ہمیں چودھویں رات کی دودھیا چاندنی میں اپنا تفویض کیا گیا فریضہ ادا کرنے کے لیے نکلنے والے اناجیل جیسا بنا سکتی ہے ۔ اناجیل ؛جس کا وجود روشنی،دانش، امید اورخوش خبری کاا ستعارہ ہو گیا ہے۔

محمد حمید شاہد 
ا سلام آباد

Back to Conversion Tool

نیلی آنکھوں کے خواب


نورین طلعت سحر کے افسانے
محمد حمید شاہد کے قلم سے ’’نیلی آنکھوں کے خواب‘‘ کا دیباچہ

اردو افسانے کی تاریخ میں مٹھی بھر خواتین کہانی لکھنے والیوں کا ذکر آتا ہے اور یہ بھی اپنی جگہ واقعہ ہے کہ ان میں سے چند ہی ہوں گی جو اپنے مزاج کو افسانے کی جادوئی صنف کے باطن سے ہم آہنگ کر پائی ہوں گی۔ باقیوں کا قصہ یہ ہے کہ کہانی کے عین آغاز میں ہی یا تو وہ خود بینی اور خود رائی کاشکار ہوجاتی ہیں یا پھر انہیں اپنی قبیل کو مظلوم ثابت کرنے کا ہوکا لگ جاتا ہے اور انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ تو کہانی لکھنے جا رہی تھیں ۔ نوریں طلعت سحر کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے مجھے لگا ہے کہ اپنی تخلیقی زندگی کی ابتدا ہی میں اس کے قدم اس ڈگر پر پڑنے لگے ہیں جہاں عورت نہ تو محض وجود رہتی ہے ۔۔۔چکنا چمکتا ہوا۔۔۔اور نہ ہی ایک زخم ہو جاتی ہے ۔۔۔دکھتا ہوا اور رستا ہوا۔
عورت کیا ہے؟ دِکھنے کی شئے یا تہذیب کا زخم‘ جنس اور لذت یا پھر تصویر کائنات کا بس ایک رنگ؟یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر اٹھائے جاتے ہیں ۔ کبھی جان بوجھ کراور کبھی یہ خود ہی جنگلی گھاس کی طرح اُگ آتے ہیں ۔ اس خود رو گھاس کو کاٹتے رہنے کی للک رکھنے والے بہت سے گھسیاروں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں پہلے پہل رومانوی رویے کے کچے اور لسلسے خوابوں نے کچھ کرنے ہی نہ دیا‘پھر وہ ترقی پسندوں کے جلوس میں جاگھسے اور نعرہ بازی کے مشغلے کو ہی افسانے کا چلن سمجھنے لگے ۔ اس مزاج کے لکھنے والوں کو اپنی زمین اور اپنے پیاروں کے ساتھ ایمان اور یقین کی سطح پر جڑی عورت ڈھنگ سے کیسے دکھائی دے سکتی تھی کہ انہیں تو نعرے لگاتی‘پاؤں کی مٹی جھاڑتی‘مردوں کی چھاتی میں جھنڈے کا نیزہ گاڑتی عورت بھلی لگتی تھی۔اور اب یہ ہورہا ہے کہ عورتوں کی نام نہاد مغرب زدہ تحریکیں ان لکھنے والوں کو اس عورت سے بہت دور لے گئی ہیں جس کے وجوداور چلن سے مشرق کا تہذیبی مزاج مرتب ہوتا ہے۔
طلعت نورین سحر نے یوں کیا ہے کہ اسی مشرقی تہذیب کی علامت عورت کو بے ہنگم تبدیلی کی سان پر چڑھے وقت کے مقابل لا کھڑا کیا ہے ۔اس شاطر وقت کے مقابل کہ جس نے مٹی کی مہک میں مست رہنے والے انسانی معاشروں سے بے وفائی کا نہ صرف چلن کیا ہے ‘انہیں لتاڑ کر رکھ دینے والوں سے گٹھ جوڑ بھی کر لیا ہے۔ میں نے سحرکے افسانے پوری توجہ سے پڑھے ہیں اور ہر بار یوں ہوا ہے کہ مجھے اس کا اپنا وزن شاطروقت کے پلڑے میں پڑتا دکھائی نہیں دیا۔ میرے لیے یہ بات کوئی کم اہم نہیں ہے کہ سحر وقت سے مات نہ کھانے کا حوصلہ لے کر کہانی کی حقیقت کے مقابل ہو گئی ہے۔ یہ جو میں نے اپنی افسانہ نگار کا وجود وقت کے پلڑے سے الگ دکھایا ہے تو اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا وزن ہر بار عورت کے ان معصوم کرداروں کے حق میں جاپڑتا ہے جو اس نے بڑی محبت سے جذبوں کی زبان میں تراشے ہیں ۔ بل کہ یوں ہے کہ لگ بھگ ہر بار اس نے کمال تخلیقی حکمت سے عورت کو اس کے پورے وجود کی حضوری کے ساتھ توتا چشم وقت کے مقابل کھڑا کرکے زیادہ بامعنی بنادیا ہے۔
طلعت نورین سحر کے ہاں کہانی کا ٹھوس اور ٹھکا ہوا وجود لائق اعتنا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ واقعات کو اپنی زمانی ترتیب میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ لائے بغیر کیسے مدہم بہاؤ میں بہنا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب وہ کسی کہانی کا متن مرتب کر رہی ہوتی ہے تو وہ اپنے وجود کی مہک اور اپنے بھیتر کے پاکیزہ جذبوں کو بھی حاضر رکھتی ہے ۔ یہی خوشبو اور یہی جذبے سطر سطر میں جذب ہوکر ایک لَو سی جگا دیتے ہیں۔ سحر کی کہانیوں میں ایسے مقام بھی آتے رہتے ہیں کہ جب یہ لو بہت تیز اور زیادہ توجہ مانگنے والی ہو جاتی ہے ۔ اس چوندھ میں قاری کیا ‘خود کہانی کے واقعات پربھی ٹھٹھک کر ٹھہرنالازم ہوجاتا ہے ۔ تاہم جہاں جہاں اس نے واقعہ کے اسراع اور کرداروں کے انہماک کے اندر اس لَو کو رواں کیا ہے وہاں تحریر کا لطف اس دھیمی اور جادو اثر خوشبو کا سا ہوگیا ہے جو پڑھنے والے کے وجود کا حصہ ہو جایاکرتی ہے۔ سحر کی کہانیوں میں جزیات نگاری کو حیلے کے طور پر اختیار نہیں کیا گیا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ منظر نگاری کی طرف متوجہ نہیں رہی ہے۔ کہانی کا مطلوبہ منظر اس کے بیانیے کے اندر سے پھوٹتا ہے ۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ منظر تصویر کی طرح جامد نہیں ہوتا تصور کی طرح سیال اورمتحرک رہتا ہے۔محبت کی شدید طلب‘ انسانی وجود کا احترام اور سماجی زندگی کے حوالے سے اعلی آدرشوں کا سحر اس کے افسانے کے بنیادی مزاج کو تشکیل دیتے ہیں۔
طلعت نورین سحرنے (ادبی مراکز سے دو ر ‘ اٹک میں رہتے ہوئے ) اپنی تخلیقی ادبی زندگی کے آغاز میں انسانی وجود کوکچل ڈالنے والی تلخ حقیقتوں کوجس سنجیدگی سے گرفت میں لینے کی سعی کی ہے اسے توجہ سے دیکھا جانا چاہیے ۔ کیا یہ بات کم اہم ہے کہ اس پہلے مرحلے ہی میں وہ اخلاص نیت سے اس حقیقت کو سمجھنے میں جت گئی ہے کہ ہر افسانے کے عناصر کو ایک دوسرے سے مختلف کرنا کیوں ضروری ہوتا ہے ۔ ہیئت اور مواد کا امتزاج کیسے بنتا ہے۔ زبان اور ماحول کو ہم صورت کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔ سحر جس خلوص اور طلب کی شدت کے ساتھ کہانی سے جڑگئی ہے اس نے نہ صرف مجھے اِس کتاب کی کہانیوں کی طرف متوجہ رکھا ہے‘ بجا طور پر اس امید سے وابستہ بھی کر دیا ہے کہ آگے چل کروہ اور بھی بھر پور کہانیاں لکھے گی اور اپنے لطیف احساس اور حساس طبعیت سے اسی دھج سے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو کریدتی چلے جائے گی۔

محمد حمید شاہد
اسلام آباد

Saturday, August 21, 2010

جاوید اختر پاشا کے افسانے: ایک تاثر



جاوید اختر پاشا کے افسانے: ایک تاثر
محمد حمید شاہد

امریکی شاعری کا جو انتخاب کیون پروفر نےکیا اکادمی ادبیات ،پاکستان نے اسے اردو میں ترجمہ کروایا،اور اپنے ہاں سے چھاپ دیا اس میں کیتھی سونگ کی تین نظمیں شامل ہیں جنہیں اردو کے قالب میں ڈھالنے کا اتفاق مجھے ہوا ہے ۔ اپنے ہاں کے جاوید اختر پاشا ، جو ادھر امریکہ میں جابسے ہیں ، کے افسانے پڑھتے ہوئے ، نہ جانے کیوں مجھے کیتھی سونگ کی ان تین میں سے اےک نظم”The Youngest Daughter“ رہ رہ کر یاد آرہی ہے ۔نظم قدرے طویل ہے مگر میں اس کا ایک حصہ آپ کی نذر کرکے آپ تک اس خاص تعلق کے لطف کو پہنچانا چاہتا ہوں، جوجاوید اختر پاشا کی کہانیاں پڑھتے ہوئے اپنی زمین سے وابستگی کے احسا س سے جاگ اٹھتاہے۔ کیتھی سونگ نے لکھا تھا:
” ۔۔۔۔۔/کچھ دنوں سے جب میں اپنے پپوٹے چھوتی ہوں /میرے ہاتھ کچھ یوں ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے میں نے جلا دینے والی گرم چیز چھو لی ہو۔/میری جلد، اسپرین کے رنگ جیسی جلد،/درد شقیقہ سے چِن مِن کرتی ہے ۔/اماں میرے چہرے کے بائیں حصے کی مالش کیا کرتیں/خاص طور پر شام پڑے ، جب درد بھڑک اٹھتا/اس صبح اس کی سانسوں میں رڑک تھی /اور اس کی آواز محبت کے احساس سے رندھ گئی /جب میں اس کی چلتی کرسی کو دھکیل کرغسل خانہ تک لے گئی،وہ اچھے موڈ میں تھیں/اپنی بڑی بڑی چھاتیوں کا مذاق مذاق اڑا رہی تھیں /جودودھیا پانی میں اوت بلاﺅ کی مانند تیر رہی تھیں/جن کی ڈھلکی بھٹنیوں کے گرد مونچھوں جیسے بال تھے/اپنے منھ میں کھٹا سا ذائقہ لیے میں نے انہیں رگڑا ، یہ سوچتے ہوئے کہ/چھے بچوں اور ایک بوڑھے مرد نے ان بھوری بھٹنیوں کو چوسا ہے/میرا دل بھر آیا جب میں ان نیلے زخموں تک پہنچی /جس کی چِتیوں سے انکا جسم بھرا ہے۔/ وہ جگہیں جہاں وہ تیس سال سے انسولین کے ٹیکے لگاتی رہی ہیں/میں نے آہستہ آہستہ صابن ملا /انہوں نے ایک گہرا سانس لیا/ان کی آنکھیں بند تھیں/جیسے یہ ہمیشہ سے یوں ہی تھا/ہم دونوں اس بے دھوپ کمرے میںغسل کے پانی کو چھپ چھپاتے/تیسرے پہر جب وہ آرام کر چکتیں/تو وہ حسب معمول چائے اور چاول تیار کرتیں/جن پر ادرک میں بنی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا اور شلجم کا اچار/میرے سفید جسم جیسا سجا ہوتا /ہم مانوس خامشی میں کھانا کھاتے /انہیں پتہ ہے کہ مجھ پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا/میں تو شاید اس وقت بھی فرار کے منصوبے بنا رہی ہوں /جب میں ان کا جام صحت اس چائے سے تجویز کرتی ہوں ،جو انہوں نے بنائی ہے/تو ہزاروں کونجیں کھڑکی کو ڈھانپتے ہوئے /یکدم ہوا کے جھونکے میں پرواز کر جاتی ہیں۔“
تو یوں ہے کہ کونجیں پرواز کر رہی ہیں ۔
ہمارے افسانہ نگار،جی اپنی زمین اور اپنے تہذیبی وجود کو ماں کی طرح مہربان اورایمان اور اپنی محبت کی طرح متبرک سمجھنے والے افسانہ نگارکا تعلق اپنی زمین اور تہذیبی مظاہر سے کیتھی سونگ کی نظم کی اس ماں کا سا ہو گیا ہے ۔ ماںجو اب بیمار ہے۔ اس کی بھوری بھٹنیوں کا سارا رس اس کے بیٹے بیٹیاں یعنی عوام یا اس کو تاراج کرنے والے بدطینت حکمران چوس چکے ہیں ۔
اور کونجیں ہیں کہ پرواز کر رہی ہیں ۔
کونجوں کے یوں ایکاایکی پرواز کرنے کا منظر نہ جانے کیوں جاوید اختر پاشا کے افسانے ”سفید چادر“ سے جڑ گیا ہے ۔ اس افسانے کے مرکز میں اپنا وطن چھوڑ کر سات سمندر پار قدم جمانے کے جتن کرنے والے دو کردار ہیں ترحم خان اور رستم خان ۔ مگر کہانی اپنے پس منظر میں راج بی بی اوردوسرے کرداروں کویوں ساتھ لے کرچلتی ہے کہ انہیں سے معنوی اعتبار پاتی ہے۔
”۔۔۔ایک بار گاﺅں کے بوڑھے برگدتلے جمی چوپال میں کسی نئے نئے اٹھتے لاابالی لونڈے نے راج بی بی کی جوانی پر کوئی چبھتا سا گندہ فقرہ کس دیا تو اس کے والد خان بابا مگر گاﺅں کے سردار، خان علی بھڑک اٹھے اور جوش سے کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔پھر انہوں نے لمبی سانس لی اور چارپائی پر دوبارہ دوبارہ بیٹھتے ہوئے چوپال والوں سے پوچھا:گاﺅں کی مسجد میں وضو کے لیے بنے ہوئے تالاب کاپانی ایک نجس قطرے سے پلید ہو جائے تو تم اس پانی سے وضو کرو گے۔ سب ےک زبان ہوکر بولے ۔ جی نہیں۔ خان نے دوبارہ پوچھا آٹا گوندھتے ایک نجس قطرہ اسے پلید کردے تو اس سے بنی روٹی کھاﺅ گے۔ سب بولے ۔جی نہیں۔ تمہاری عورت کسی غیر کے پاس رہ کر آئے تو قبول کر لو گے۔یہ ان کی غیرت کا سوال تھا ۔ سب پر جوش انداز میں بولے ۔ بالکل نہیں۔ “
یہ ہے وہ پس منظر جو کہانی کے عقب میں سے گونجتے ہوئے برآمد ہوتا ہے اوراجنبی زمین کے مختلف مگر اسی طرح چیختے چنگھاڑتے منظر نامے سے جڑ جاتا ہے۔
”کیا ترحم خاناں ، اپنی کاغذی بیوی کے ساتھ تیرے خصوصی ازدواجی تعلقات بھی ہیں ۔۔۔ہاں اس کے بغیر تو اب گزارہ ہی نہیں ہے ۔ ۔۔یہ تو قانونی تقاضا ہے ۔ شک ہو جائے تو سرکار اسے طبی معائنے سے جانچتی بھی ہے۔۔۔اور وہ گلاب بانو؟رستم کا اگلا سوال ترحم خان کے گلے کا پھندا تھا۔“
کہانی اپنے اختتامی جملوں میں فیصلہ سنا دیتی ہے ۔ بولتا ہوا فیصلہ :
” میں آج وطن واپس جا رہا ہوں کیوں کہ میں ابھی پلید ہونے سے بچا ہوا ہوں۔“
پاکیزگی اور پلیدی کا یہ تصوراردو افسانے کی سائیکی کا حصہ ہے ۔ یقینا آپ کو یہاں راجندر سنگھ بندی کی معروف کہانی ”لاجونتی ِ“ کی لاجو یاد آگئی ہو گی جو تقسیم میں بچھڑ گئی تھی، پھر مل گئی ۔ مگر ملی بھی یوں کہ بس کرجیسے اجڑ گئی تھی۔ اور وہ گیت بھی تو یاد آ رہا ہوگا ” ہتھ لائیاں کملان نی ،لاجونتی دے بوٹے“ یہ لاجونتی کے بوٹے ہمارے ہاں سے ہی معنویت کشید کر سکتے ہیں ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں بیدی کے سندر لال کے ہاں پاکیزگی کا یہ تصور انتہا پسندی کے زیر اثرپروان چڑھا ہے تبھی تو اس کے من میں شک کا بیج بو کر اسے لاجو سے کاٹ رہا ہے ۔ جاوید پاشا نے اس شک اور شدت پسندی کی بہ جائے پاکیزگی کے تصور سے اس خالص تعلق کو تلاش کیا ہے جو رستم کو اپنی تہذیبی روایت (اور اس کی اپنی محبوبہ پروین خانم، جو کسی بھی صورت میں کا غذی بیوی جیسی ضرورت/سہولت /مجبوری کو پچھاڑنے کی سکت رکھتی ہے)سے جوڑ دیتا ہے۔
” بیعت قدسی “ کو بھی میں اسی نوع کی کہانیوں میں رکھنا چاہوں گا جو اپنے لوگوں اور اپنے تہذیبی اور زمینی رشتوں سے افسانہ نگار کے جڑنے اور ان کے لیے اپنے وجود میں ایک خاص تڑپ رکھنے کا مظہر ہو گئی ہیں ۔بہ ظاہر یہ کہانی اےک گاﺅں کی ہے جس میں سرکاری کارندے اور کچھ دوسرے مفاد پرست چوہدری فضل کے حواری اور مددگار ہو گئے ہیں مگراپنے ڈیپ اسٹریکچر میں یہ ہماری اپنی بے حمیتی کی کہانی ہے جس میں ایک عالمی چوہدری ہمارے ہاں کے بے ضمیروں کو ساتھ ملا کر ہم پر آزاد زندگی کی راہیں مسدود کر چکا ہے ۔ افسانہ نگار ان بے حمیت لوگوں سے نالاں اور مایوس ہے جو ظلم سہتے ہوئے مرتو رہے ہیں مگر خم ٹھونک کر ظالم کے مقابل نہیں ہوتے تاہم وہ مکمل طورپر مایوس نہیں ہے تبھی تو وہ معاشرے کے ایک مردود کردار کو اتنا توانا بنا دیتا ہے کہ چوہدری فضل جیسا سفاک شخص بھی اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینے کی تمنا کرنے لگتا ہے۔
افسانہ ”یاد رہے کہ۔۔۔“ ایک پیدائشی امریکی اور ترقی پسند جمہوری جماعت سے وابستہ ہو کر قابل قدر خدمات سر انجام دینے والے محمود صفوات کی کہانی ہے ۔ محمود صفوات کے والدین چالیس سال پہلے ایران سے امریکہ آئے تھے اور یہاں آکر یوں بس گئے تھے کہ اب ان کے بیٹے محمود صفوات کے لیے امریکہ ہی اس کا وطن تھا۔ یہاں اسے مواقع بھی خوب ملے اور اس نے خلوص نیت سے اپنے آپ کو امریکی مفادات سے وابستہ کر لیا تھا۔ یہ وابستگی اس کے کسی کام نہ آئی کہ اس کامسلمان ہونا اورایرانی نژاد ہوناایسا جرم تھا جو امریکی مزاج کی تلچھٹ میں پڑی تنگ نظری کو اچھال کر سامنے لے آیا ہے۔میں نے اس کہانی میں اپنی سہولت کے لیے ایرانی نژاد کردار کو پاکستانی نژاد کرکے اسے کہانیوں کی اس ذیل میں رکھ لیا ہے جو جاوید پاشا نے اپنوں کی محبت میں لکھی ہیں ۔( لگ بھگ ایسا ہی ایک روشن خیال پاکستانی کردارجو امریکہ میں ابس کر امریکی ہوگیا تھا، میری ایک کہانی ”گانٹھ“ میں ایسی ہی تنگ نظری کا شکار ہوکر نائن الیون کے بعد ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔) جاوید پاشا کایہ افسانہ صرف اپنوں کی محبت کی ہی کہانی نہیں ہے اس دوغلے سماج کو بھی اس میں ننگا کر دیا گیا ہے جو بہ ظاہرفراخ اور متحمل ہے مگر فی الاصل جس کا باطن تنگ نظری سے اٹا پڑا ہے ۔
جاوید پاشا کے افسانہ ”تاجور“ میں اسی تنگ نظر معاشرے کی ایک اور کجی کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ تاجور ایک تخلیق کار کی کہانی ہے ۔ ایناروز میری سکہ بند شاعرہ تھی اوراس کی نظمیں ”دھواں دھواں عراق“ اور ”شہید بچے کی نگاہیں“جنگ سے نفرت کاعالمی نعرہ بن چکی تھیں۔ وہ نیویارک کے پبلشرز کی نظر میں آگئی ۔ ان کی عنایات کا سلسلہ دراز ہوا تو اسے نیویارک منتقل ہونا پڑا۔ تاہم جس معاشرے میں وہ منتقل ہوئی تھی اس کے اندر سے تخلیقی جوہر رخصت ہو چکاتھا۔ ممکن ہے اس نتیجے کا استخراج زیادہ شدید ہو، تاہم کم از کم اتنا تو بہ سہولت اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس معاشرت میں رہتے ہوئے، اس طرح کا تخلیقی ہونا، جس مرتبے کی ایناروز میری تھی، ممکن ہی نہ تھا ۔ تو یوں ہے کہ ایک روز وہ بانجھ معاشرت اور اس کی بوجھل آسائشوں کو تھتکار کر اپنوں کے ہاں کولمبس لوٹ آتی ہے۔ بے پناہ محبت کے حصار میں ۔ اپنے آپ میں اکیلے ہوجانے والے لوگوں سے نکل کر آتے ، اور بے ریا محبت کے درمیاں پہنچتے ہی شاعری کی دیوی اس پر مہربان ہوجاتی ہے ۔
جاوید پاشا کے ہاں دوسری نوع کی کہانیوں میں اچھوتا منظر نامہ بنتا ہے ۔ میں ”جوگ جنوں پیشہ“ جیسے قابل توجہ افسانے کو اس ذیل میں بہ طور مثال پیش کر نا چاہوں گا۔ ڈاکٹر کیتھرائن ، راجر اور ڈاکٹر فیلسوف کی اس کہانی میں اگرچہ محبت کی معروف ازلی اور قدیم تکون کو برتا گیا ہے مگر اس کہانی کا منظر نامہ ایسا ہے جو اسے بالکل الگ مزاج عطا کرتا ہے۔ تینوں بچپن کے ساتھی تھے اور بہ قول افسانہ نگار ےہ اتفاق تھا کہ تینوں دوست پڑوسیوں کی طرح بڑے ہوئے جب کہ امریکہ میں اس قدر طویل پڑوس کا امکان کم کم ہی ہوتا ہے ۔ اس کہانی کو اس طرح کے چھوٹے چھوٹے امکانات اور حادثات مختلف نہیں بناتے بلکہ وہ فضا مختلف بنا رہی ہے جس میں خلائی جہاز اٹلانٹس، جدید ترین کیمرے حبل، امریکی خلائی ادارہ،خلائی چہل قدمی اور اس طرح کے اردو افسانے کے لیے اجنبی الفاظ سہولت سے استعمال ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کہانی میں محض ان الفاظ کو استعمال ہی نہیں کیا گیا سائنسی ماحول بنانے کے لیے بہت موزوںجزوکاری بھی گئی ہے ۔ کہیں اس فضا کو باندھنے کے لیے ڈاکٹرا سٹیفن ہاکنگ آتے ہیں تو کہیں خلا کے دھند نما اشارے ،دھواں دھوں عبارتیں،بے رنگ اجنبی بجھارتیں ۔ کسی کم توفیق والے افسانہ نگار کے بس میں نہ تھا کہ اس طرح کے منظر نامے کو اس سہولت سے بیانیے کا حصہ بنا لیتا ۔ تو صاحب یوں ہے کہ اس باب میں بھی جاوید پاشا کو توفیق ارزانی ہوئی ہے ۔
جاوید پاشا نے افسانہ ”آگ،برف اور راکھ“ کے ذریعے بھی اردو افسانے کے تخلیقی مزاج میں ایک نئے ذائقے کو متعارف کرایاہے۔یپ وک کی اس کہانی کا مرکزی کردار بھی محبت کی ایک کہانی تشکیل دے رہا ہے۔ ایک بے پناہ محبت۔ برفانی اندھیروں میں راستہ تلاش کرنے کے دھنی اس کردار کو ہماری فکشن کی قدیم روایت سے وابستہ داستانوں کے مہم جُو کرداروں کا ہم مزاج بنایا گیا ہے۔ کہانی کی فضا اتنی اچھوتی اور نئی ہے کہ کہانی کے موضوع کو آگے بڑھانے والا مواد ثانوی ہوجاتا ہے ۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ آخر میں جاکر یہ موادبھی توجہ نہ کھینچے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں افسانہ نگار اپنی فنی مہارت کو بروئے کار لاکرٹیل میں ایک ٹوسٹ سے محبت کے اس لازوال جذبے کواچھالتا اور نمایاں کر دیتا ہے جس کی تاہنگ میں اجسام جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔
افسانہ ”بدلتے موسم“ کی مختصر کہانی اپنے مزاج کے اعتبار سے الگ ہوگئی ہے کہ اس میں محبت سے کہیں زیادہ اس جنس کو موضوع بنایا گیا ہے جو سلور شیلڈ کے کسرتی بدن میں ابھی تک موجزن ہے مگر وہی جنس جو کبھی اس کی بیوی کے لیے زندگی کا سامان تھی ،ایک عمر گزارنے اور بدنی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد تعفن چھوڑنے لگتی ہے۔ سلور شیلڈ کے لیے دونوں طرف وہی دو بدن ہیں ، اےک لطف دینے والا اور دوسرا لذت کشید کرنے والا مگراس کی محبوب بیوی کے لیے اب دونوں کے معنی بدل گئے ہیں ۔ اب اس کے لیے اپناوجودقانونی تقاضے پورے کرتی فاحشہ کے جسم کا سا ہوگیا ہے اور سلور شیلڈ کااپنی بیوی کے ذہنی درجات سے ناواقف بدن، ایک وحشی درندے کا سا ۔
” چاروں طرف بکھرے خشک پتوں کے ڈھیر اک ذرا سی چنگاری سے ایسے بھڑکے کہ ساراگولڈن فاریسٹ پارک دہکتا جہنم بن گیا۔ دو گھنٹے بعدجب مسز میکڈانلڈخواتین کی محفل کی کارروائی نمٹاکر گھر لوٹیں تو باہر سڑک پر پولیس کی گاڑیاں اور ان کے درمیان سلور شیلڈ کو ہتھکڑیاں لگی دیکھ کر کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔ ان کے استفسار پر پولیس افسر نے انہیں بتایا کہ مسڑسلور شیلڈ نے جنسی آسودگی کے لیے اپنی بیگم کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ہے۔“
میں نہیں چاہتا کہ ساری کہانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہوئے میں آپ کو مطالعہ کے اس کنوارے لطف سے محروم کردوں جس میں ہر پڑھنے والا اپنے اپنے حوالوں سے معنیاتی سلسلے نکالتاچلا جاتا ہے ۔ لہذااس تجزیے کو روک بس اتنا کہناچاہوں گا کہ جاوید پاشا کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور ٹریٹ منٹ کا نیاپن بھی ۔اس مجموعے کی سب کہانیاں اس لائق ہیں کہ عوام الناس میں مقبول ہوں اور ادب کے خاص قارئین بھی انہیں توجہ سے پڑھیں سوائے اےک کے ۔ جی مےرا اشارہ ”لکن میٹی“ کی طرف ہے جو شاید اس مجموعے کی کمزور ترین کہانی ہے۔ اگرچہ اس میں بھی بیانیہ مضبوط اور رواں ہے مگربادلوں کی رحمن کے ساتھ دوستی کا یہ منظر نامہ ہمارے یقین کو گرفت میں نہیں لے پایا ۔ اوہ، کہیں آپ میری اس بات سے یہ تخمینہ نہ لگا بیٹھیں کہ میں شاید کہانی میں انسانی تجربے میں نہ آنے والے واقعات کو معیوب سمجھتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے صاحب ،کہ محض زندگی کے عمومی تجربے تک افسانے کی اقلیم کو محدود رکھنا ظلم کے مترادف ہوگا۔ افسانہ دیوار کے پرے دیکھ سکتا ہے۔ ان چھوئے مناظر کو گرفت میں لا سکتا ہے ۔ حتی کہ ان ہونی کو ہوتا دکھا کر اسے ہونی شدنی کے درجے پر بھی فائز کر سکتا ہے مگر ایسے افسانوں کا قرینہ مختلف ہوجایا کرتا ہے ۔محض ٹھوس حقیقت نگاری کا وسیلہ ایسے میں اکثر مات کھاجاتا ہے۔ ایک سطح پر پھسلتا چلتا بیانیہ وہ التباس پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتا جو سامنے والے مفاہیم دھندلاکر ان کے اندر سے ذرا مختلف معنی کا التباس اچھال دے ۔یہیں مجھے انتظار حسین کی ایک کہانی ”بادل“ یاد آرہی ہے ۔ اس میں بھی ایک بچہ بادلوں کی تلاش میں نکلتا ہے ۔ جب وہ بادلوں کی جستجو میں ادھر ادھر بھٹک کر واپس گھر آتاہے تو بادل اس کے گھر پر برس کر جا چکے ہوتے ہیں ۔ اچھاوہ التباس جس کا میں نے اوپر ذکر کیا اس افسانے کے باب میں کام کررہا ہے۔ یوں کہ کوئی چاہے تو اس افسانے سے یہ بھی اخذ کر سکتا ہے کہ بچے کی طلب اتنی سچی اور شدید تھی کہ بادلوں کو اس کے گھر آکر برسنا پڑا ۔ خیر جاوید پاشا کی اس کمزور کہانی کا قاری اگر بدل دیا جائے تو یہی کہانی کامیاب بھی چابت ہو سکتی ہے ۔ جی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اسے بچے پڑھیں گے تو یہ کہانی ان کے دل میں بھی جگہ بناسکتی ہے ۔
مجموعی اعتبار سے دےکھیں تو جاوید اخترپاشا کی کہانیاں اردو افسانے پر ا جنبی فضاکے ا نوکھے جہاں کو کھولنے اور پرائے ماحول میں انسانی حسیات کی کارگزاری کوگرفت میں لینے سے عبارت ہوتی ہیں ۔ کرداروں کو نہایت سلیقے سے تراشا گیا ہے ۔ بیانیہ صاف اور رواں ہے ۔ اور واقعات میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ کی بہ جائے انہیںوقت کے بہاﺅ کے تابع رہنے دیا گیا ہے ۔ ان قرینوں کو بروئے کار لاکر جاوید پاشا نے ایسی اہم کہانیاں لکھ دی ہیں جو قاری کی توجہ کھینچ لینے اور ان میں مقبول ہونے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہیں ۔ میں جاوید پاشا کی اردو افسانے سے اس سچی لگن پر بہت سرشار ہوا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ اس کا قلم اسی دھج سے رواں دواں رہے ۔
محمد حمید شاہد
۳۰ اپریل ۲۰١۰، اسلام آباد

Saturday, March 28, 2009

جمیل احمد عدیل کے افسانے

محمد حمید شاہد
ہاویہ کے افسانے


’موم کی مریم“ ” زرد کفن میں نخل ایمن“ اور”بے خواب جزیروں میں“ کی کہانیوں کو پڑھتے ہی میں نے جمیل احمد عدیل کا شمار گذشتہ ربع صدی میں اپنی شناخت مرتب کرنے والے ان اَفسانہ نگاروں میں کر لیا تھا جن کا مسئلہ محض وجود کی لذت نہیں ہے ۔ ایسے تخلیق کاروں کو ماورا کا علاقہ اچھا لگتا ہے۔ جمیل احمدعدیل کو بھی یہی بستی بہت لبھاتی رہتی ہے کہ اسی بستی میں رہ بس کر اس کے وجود پر نفی اور اثبات کی پھوار برستی ہے۔ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ ہمارے اس افسانہ نگار کے نزدیک مردہ روحانیت ادب کے بطن میں وہ مردہ بچہ ہے جواندر ہی اندر گل سڑ کرتخلیقی عمل کے وجود کے لیے زہر قاتل بن جاتا ہے ۔ ”ہاویہ “ کی کہانیوں میں اس نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ استخوانی ڈھانچے پر مٹھی بھر گوشت مڑھ کر اس میں اشتہا کی آگ بھر دینے سے آدمی نہیں بنا تھاکہ اس کے پاس دل اور دماغ دونوں ہیں۔ ایک دھڑکتا ہے تو دوسرا سوچتا ہے ۔ ایک لپکتا ہے تو دوسرا منطق مانگتا ہے۔ اسی پورے آدمی کی کہانی کو جمیل احمد عدیل نے کچھ اس قرینے سے لکھا ہے کہ حقیقت اپنی جون بدل کر دیکھتے ہی دیکھتے حکایت ہو گئی ہے ۔ صاحب خدا لگتی کہوں گا کہ وہ افسانہ نگار جن کے پاس پوچھنے کو کوئی بڑا سوال نہیں ہوتا ان کی کہانیاں انجام کار‘ہوسناک بڑھیا چٹائی کا لہنگا‘ کی مثل ہو جاتی ہیں۔ کیا یہ بڑی بات نہیں ہے کہ جمیل احمد عدیل کے ہاں واقعہ محض چھل بٹا نہیں رہتا دانش کا چق ماق ہو جاتا ہے ۔ عقل کیا ہے اور ارداہ کیا؟ نئی اسطورہ کے مقدر میں عبرت کی حکایت بننا ہی کیوں لکھ دیا گیا ہے؟یہ جو آدمی معدوم ہو رہا ہے تو اس کے کیا معنی ہیں؟‘ جب قدموں تلے کی مٹی اچھلنے لگتی ہے تو وجود کی تختی پر کیا نقش بنتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو اس کے افسانوں میں ڈھل کر ایک بنیادی سوال کا حصہ ہو جاتے ہیں ‘ یہی کہ یہ ناس مارا آدمی آخر ہے کیا اور اس موئے کی حقیقت کیا ہے؟؟ .... جمیل احمد عدیل میرے لیے یوں بھی لائق توجہ ہو گیا ہے کہ اس نے کہانی کے متن میں سوال کی آنچ رکھنے کی للک میں واقعہ کے ساتھ ساتھ زبان اور بیان کو بھی اپنے ڈھنگ پرلا کر مختلف کرلیا ہے ۔

Followers