Saturday, August 21, 2010

جاوید اختر پاشا کے افسانے: ایک تاثر



جاوید اختر پاشا کے افسانے: ایک تاثر
محمد حمید شاہد

امریکی شاعری کا جو انتخاب کیون پروفر نےکیا اکادمی ادبیات ،پاکستان نے اسے اردو میں ترجمہ کروایا،اور اپنے ہاں سے چھاپ دیا اس میں کیتھی سونگ کی تین نظمیں شامل ہیں جنہیں اردو کے قالب میں ڈھالنے کا اتفاق مجھے ہوا ہے ۔ اپنے ہاں کے جاوید اختر پاشا ، جو ادھر امریکہ میں جابسے ہیں ، کے افسانے پڑھتے ہوئے ، نہ جانے کیوں مجھے کیتھی سونگ کی ان تین میں سے اےک نظم”The Youngest Daughter“ رہ رہ کر یاد آرہی ہے ۔نظم قدرے طویل ہے مگر میں اس کا ایک حصہ آپ کی نذر کرکے آپ تک اس خاص تعلق کے لطف کو پہنچانا چاہتا ہوں، جوجاوید اختر پاشا کی کہانیاں پڑھتے ہوئے اپنی زمین سے وابستگی کے احسا س سے جاگ اٹھتاہے۔ کیتھی سونگ نے لکھا تھا:
” ۔۔۔۔۔/کچھ دنوں سے جب میں اپنے پپوٹے چھوتی ہوں /میرے ہاتھ کچھ یوں ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے میں نے جلا دینے والی گرم چیز چھو لی ہو۔/میری جلد، اسپرین کے رنگ جیسی جلد،/درد شقیقہ سے چِن مِن کرتی ہے ۔/اماں میرے چہرے کے بائیں حصے کی مالش کیا کرتیں/خاص طور پر شام پڑے ، جب درد بھڑک اٹھتا/اس صبح اس کی سانسوں میں رڑک تھی /اور اس کی آواز محبت کے احساس سے رندھ گئی /جب میں اس کی چلتی کرسی کو دھکیل کرغسل خانہ تک لے گئی،وہ اچھے موڈ میں تھیں/اپنی بڑی بڑی چھاتیوں کا مذاق مذاق اڑا رہی تھیں /جودودھیا پانی میں اوت بلاﺅ کی مانند تیر رہی تھیں/جن کی ڈھلکی بھٹنیوں کے گرد مونچھوں جیسے بال تھے/اپنے منھ میں کھٹا سا ذائقہ لیے میں نے انہیں رگڑا ، یہ سوچتے ہوئے کہ/چھے بچوں اور ایک بوڑھے مرد نے ان بھوری بھٹنیوں کو چوسا ہے/میرا دل بھر آیا جب میں ان نیلے زخموں تک پہنچی /جس کی چِتیوں سے انکا جسم بھرا ہے۔/ وہ جگہیں جہاں وہ تیس سال سے انسولین کے ٹیکے لگاتی رہی ہیں/میں نے آہستہ آہستہ صابن ملا /انہوں نے ایک گہرا سانس لیا/ان کی آنکھیں بند تھیں/جیسے یہ ہمیشہ سے یوں ہی تھا/ہم دونوں اس بے دھوپ کمرے میںغسل کے پانی کو چھپ چھپاتے/تیسرے پہر جب وہ آرام کر چکتیں/تو وہ حسب معمول چائے اور چاول تیار کرتیں/جن پر ادرک میں بنی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا اور شلجم کا اچار/میرے سفید جسم جیسا سجا ہوتا /ہم مانوس خامشی میں کھانا کھاتے /انہیں پتہ ہے کہ مجھ پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا/میں تو شاید اس وقت بھی فرار کے منصوبے بنا رہی ہوں /جب میں ان کا جام صحت اس چائے سے تجویز کرتی ہوں ،جو انہوں نے بنائی ہے/تو ہزاروں کونجیں کھڑکی کو ڈھانپتے ہوئے /یکدم ہوا کے جھونکے میں پرواز کر جاتی ہیں۔“
تو یوں ہے کہ کونجیں پرواز کر رہی ہیں ۔
ہمارے افسانہ نگار،جی اپنی زمین اور اپنے تہذیبی وجود کو ماں کی طرح مہربان اورایمان اور اپنی محبت کی طرح متبرک سمجھنے والے افسانہ نگارکا تعلق اپنی زمین اور تہذیبی مظاہر سے کیتھی سونگ کی نظم کی اس ماں کا سا ہو گیا ہے ۔ ماںجو اب بیمار ہے۔ اس کی بھوری بھٹنیوں کا سارا رس اس کے بیٹے بیٹیاں یعنی عوام یا اس کو تاراج کرنے والے بدطینت حکمران چوس چکے ہیں ۔
اور کونجیں ہیں کہ پرواز کر رہی ہیں ۔
کونجوں کے یوں ایکاایکی پرواز کرنے کا منظر نہ جانے کیوں جاوید اختر پاشا کے افسانے ”سفید چادر“ سے جڑ گیا ہے ۔ اس افسانے کے مرکز میں اپنا وطن چھوڑ کر سات سمندر پار قدم جمانے کے جتن کرنے والے دو کردار ہیں ترحم خان اور رستم خان ۔ مگر کہانی اپنے پس منظر میں راج بی بی اوردوسرے کرداروں کویوں ساتھ لے کرچلتی ہے کہ انہیں سے معنوی اعتبار پاتی ہے۔
”۔۔۔ایک بار گاﺅں کے بوڑھے برگدتلے جمی چوپال میں کسی نئے نئے اٹھتے لاابالی لونڈے نے راج بی بی کی جوانی پر کوئی چبھتا سا گندہ فقرہ کس دیا تو اس کے والد خان بابا مگر گاﺅں کے سردار، خان علی بھڑک اٹھے اور جوش سے کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔پھر انہوں نے لمبی سانس لی اور چارپائی پر دوبارہ دوبارہ بیٹھتے ہوئے چوپال والوں سے پوچھا:گاﺅں کی مسجد میں وضو کے لیے بنے ہوئے تالاب کاپانی ایک نجس قطرے سے پلید ہو جائے تو تم اس پانی سے وضو کرو گے۔ سب ےک زبان ہوکر بولے ۔ جی نہیں۔ خان نے دوبارہ پوچھا آٹا گوندھتے ایک نجس قطرہ اسے پلید کردے تو اس سے بنی روٹی کھاﺅ گے۔ سب بولے ۔جی نہیں۔ تمہاری عورت کسی غیر کے پاس رہ کر آئے تو قبول کر لو گے۔یہ ان کی غیرت کا سوال تھا ۔ سب پر جوش انداز میں بولے ۔ بالکل نہیں۔ “
یہ ہے وہ پس منظر جو کہانی کے عقب میں سے گونجتے ہوئے برآمد ہوتا ہے اوراجنبی زمین کے مختلف مگر اسی طرح چیختے چنگھاڑتے منظر نامے سے جڑ جاتا ہے۔
”کیا ترحم خاناں ، اپنی کاغذی بیوی کے ساتھ تیرے خصوصی ازدواجی تعلقات بھی ہیں ۔۔۔ہاں اس کے بغیر تو اب گزارہ ہی نہیں ہے ۔ ۔۔یہ تو قانونی تقاضا ہے ۔ شک ہو جائے تو سرکار اسے طبی معائنے سے جانچتی بھی ہے۔۔۔اور وہ گلاب بانو؟رستم کا اگلا سوال ترحم خان کے گلے کا پھندا تھا۔“
کہانی اپنے اختتامی جملوں میں فیصلہ سنا دیتی ہے ۔ بولتا ہوا فیصلہ :
” میں آج وطن واپس جا رہا ہوں کیوں کہ میں ابھی پلید ہونے سے بچا ہوا ہوں۔“
پاکیزگی اور پلیدی کا یہ تصوراردو افسانے کی سائیکی کا حصہ ہے ۔ یقینا آپ کو یہاں راجندر سنگھ بندی کی معروف کہانی ”لاجونتی ِ“ کی لاجو یاد آگئی ہو گی جو تقسیم میں بچھڑ گئی تھی، پھر مل گئی ۔ مگر ملی بھی یوں کہ بس کرجیسے اجڑ گئی تھی۔ اور وہ گیت بھی تو یاد آ رہا ہوگا ” ہتھ لائیاں کملان نی ،لاجونتی دے بوٹے“ یہ لاجونتی کے بوٹے ہمارے ہاں سے ہی معنویت کشید کر سکتے ہیں ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں بیدی کے سندر لال کے ہاں پاکیزگی کا یہ تصور انتہا پسندی کے زیر اثرپروان چڑھا ہے تبھی تو اس کے من میں شک کا بیج بو کر اسے لاجو سے کاٹ رہا ہے ۔ جاوید پاشا نے اس شک اور شدت پسندی کی بہ جائے پاکیزگی کے تصور سے اس خالص تعلق کو تلاش کیا ہے جو رستم کو اپنی تہذیبی روایت (اور اس کی اپنی محبوبہ پروین خانم، جو کسی بھی صورت میں کا غذی بیوی جیسی ضرورت/سہولت /مجبوری کو پچھاڑنے کی سکت رکھتی ہے)سے جوڑ دیتا ہے۔
” بیعت قدسی “ کو بھی میں اسی نوع کی کہانیوں میں رکھنا چاہوں گا جو اپنے لوگوں اور اپنے تہذیبی اور زمینی رشتوں سے افسانہ نگار کے جڑنے اور ان کے لیے اپنے وجود میں ایک خاص تڑپ رکھنے کا مظہر ہو گئی ہیں ۔بہ ظاہر یہ کہانی اےک گاﺅں کی ہے جس میں سرکاری کارندے اور کچھ دوسرے مفاد پرست چوہدری فضل کے حواری اور مددگار ہو گئے ہیں مگراپنے ڈیپ اسٹریکچر میں یہ ہماری اپنی بے حمیتی کی کہانی ہے جس میں ایک عالمی چوہدری ہمارے ہاں کے بے ضمیروں کو ساتھ ملا کر ہم پر آزاد زندگی کی راہیں مسدود کر چکا ہے ۔ افسانہ نگار ان بے حمیت لوگوں سے نالاں اور مایوس ہے جو ظلم سہتے ہوئے مرتو رہے ہیں مگر خم ٹھونک کر ظالم کے مقابل نہیں ہوتے تاہم وہ مکمل طورپر مایوس نہیں ہے تبھی تو وہ معاشرے کے ایک مردود کردار کو اتنا توانا بنا دیتا ہے کہ چوہدری فضل جیسا سفاک شخص بھی اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینے کی تمنا کرنے لگتا ہے۔
افسانہ ”یاد رہے کہ۔۔۔“ ایک پیدائشی امریکی اور ترقی پسند جمہوری جماعت سے وابستہ ہو کر قابل قدر خدمات سر انجام دینے والے محمود صفوات کی کہانی ہے ۔ محمود صفوات کے والدین چالیس سال پہلے ایران سے امریکہ آئے تھے اور یہاں آکر یوں بس گئے تھے کہ اب ان کے بیٹے محمود صفوات کے لیے امریکہ ہی اس کا وطن تھا۔ یہاں اسے مواقع بھی خوب ملے اور اس نے خلوص نیت سے اپنے آپ کو امریکی مفادات سے وابستہ کر لیا تھا۔ یہ وابستگی اس کے کسی کام نہ آئی کہ اس کامسلمان ہونا اورایرانی نژاد ہوناایسا جرم تھا جو امریکی مزاج کی تلچھٹ میں پڑی تنگ نظری کو اچھال کر سامنے لے آیا ہے۔میں نے اس کہانی میں اپنی سہولت کے لیے ایرانی نژاد کردار کو پاکستانی نژاد کرکے اسے کہانیوں کی اس ذیل میں رکھ لیا ہے جو جاوید پاشا نے اپنوں کی محبت میں لکھی ہیں ۔( لگ بھگ ایسا ہی ایک روشن خیال پاکستانی کردارجو امریکہ میں ابس کر امریکی ہوگیا تھا، میری ایک کہانی ”گانٹھ“ میں ایسی ہی تنگ نظری کا شکار ہوکر نائن الیون کے بعد ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔) جاوید پاشا کایہ افسانہ صرف اپنوں کی محبت کی ہی کہانی نہیں ہے اس دوغلے سماج کو بھی اس میں ننگا کر دیا گیا ہے جو بہ ظاہرفراخ اور متحمل ہے مگر فی الاصل جس کا باطن تنگ نظری سے اٹا پڑا ہے ۔
جاوید پاشا کے افسانہ ”تاجور“ میں اسی تنگ نظر معاشرے کی ایک اور کجی کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ تاجور ایک تخلیق کار کی کہانی ہے ۔ ایناروز میری سکہ بند شاعرہ تھی اوراس کی نظمیں ”دھواں دھواں عراق“ اور ”شہید بچے کی نگاہیں“جنگ سے نفرت کاعالمی نعرہ بن چکی تھیں۔ وہ نیویارک کے پبلشرز کی نظر میں آگئی ۔ ان کی عنایات کا سلسلہ دراز ہوا تو اسے نیویارک منتقل ہونا پڑا۔ تاہم جس معاشرے میں وہ منتقل ہوئی تھی اس کے اندر سے تخلیقی جوہر رخصت ہو چکاتھا۔ ممکن ہے اس نتیجے کا استخراج زیادہ شدید ہو، تاہم کم از کم اتنا تو بہ سہولت اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس معاشرت میں رہتے ہوئے، اس طرح کا تخلیقی ہونا، جس مرتبے کی ایناروز میری تھی، ممکن ہی نہ تھا ۔ تو یوں ہے کہ ایک روز وہ بانجھ معاشرت اور اس کی بوجھل آسائشوں کو تھتکار کر اپنوں کے ہاں کولمبس لوٹ آتی ہے۔ بے پناہ محبت کے حصار میں ۔ اپنے آپ میں اکیلے ہوجانے والے لوگوں سے نکل کر آتے ، اور بے ریا محبت کے درمیاں پہنچتے ہی شاعری کی دیوی اس پر مہربان ہوجاتی ہے ۔
جاوید پاشا کے ہاں دوسری نوع کی کہانیوں میں اچھوتا منظر نامہ بنتا ہے ۔ میں ”جوگ جنوں پیشہ“ جیسے قابل توجہ افسانے کو اس ذیل میں بہ طور مثال پیش کر نا چاہوں گا۔ ڈاکٹر کیتھرائن ، راجر اور ڈاکٹر فیلسوف کی اس کہانی میں اگرچہ محبت کی معروف ازلی اور قدیم تکون کو برتا گیا ہے مگر اس کہانی کا منظر نامہ ایسا ہے جو اسے بالکل الگ مزاج عطا کرتا ہے۔ تینوں بچپن کے ساتھی تھے اور بہ قول افسانہ نگار ےہ اتفاق تھا کہ تینوں دوست پڑوسیوں کی طرح بڑے ہوئے جب کہ امریکہ میں اس قدر طویل پڑوس کا امکان کم کم ہی ہوتا ہے ۔ اس کہانی کو اس طرح کے چھوٹے چھوٹے امکانات اور حادثات مختلف نہیں بناتے بلکہ وہ فضا مختلف بنا رہی ہے جس میں خلائی جہاز اٹلانٹس، جدید ترین کیمرے حبل، امریکی خلائی ادارہ،خلائی چہل قدمی اور اس طرح کے اردو افسانے کے لیے اجنبی الفاظ سہولت سے استعمال ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کہانی میں محض ان الفاظ کو استعمال ہی نہیں کیا گیا سائنسی ماحول بنانے کے لیے بہت موزوںجزوکاری بھی گئی ہے ۔ کہیں اس فضا کو باندھنے کے لیے ڈاکٹرا سٹیفن ہاکنگ آتے ہیں تو کہیں خلا کے دھند نما اشارے ،دھواں دھوں عبارتیں،بے رنگ اجنبی بجھارتیں ۔ کسی کم توفیق والے افسانہ نگار کے بس میں نہ تھا کہ اس طرح کے منظر نامے کو اس سہولت سے بیانیے کا حصہ بنا لیتا ۔ تو صاحب یوں ہے کہ اس باب میں بھی جاوید پاشا کو توفیق ارزانی ہوئی ہے ۔
جاوید پاشا نے افسانہ ”آگ،برف اور راکھ“ کے ذریعے بھی اردو افسانے کے تخلیقی مزاج میں ایک نئے ذائقے کو متعارف کرایاہے۔یپ وک کی اس کہانی کا مرکزی کردار بھی محبت کی ایک کہانی تشکیل دے رہا ہے۔ ایک بے پناہ محبت۔ برفانی اندھیروں میں راستہ تلاش کرنے کے دھنی اس کردار کو ہماری فکشن کی قدیم روایت سے وابستہ داستانوں کے مہم جُو کرداروں کا ہم مزاج بنایا گیا ہے۔ کہانی کی فضا اتنی اچھوتی اور نئی ہے کہ کہانی کے موضوع کو آگے بڑھانے والا مواد ثانوی ہوجاتا ہے ۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ آخر میں جاکر یہ موادبھی توجہ نہ کھینچے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں افسانہ نگار اپنی فنی مہارت کو بروئے کار لاکرٹیل میں ایک ٹوسٹ سے محبت کے اس لازوال جذبے کواچھالتا اور نمایاں کر دیتا ہے جس کی تاہنگ میں اجسام جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔
افسانہ ”بدلتے موسم“ کی مختصر کہانی اپنے مزاج کے اعتبار سے الگ ہوگئی ہے کہ اس میں محبت سے کہیں زیادہ اس جنس کو موضوع بنایا گیا ہے جو سلور شیلڈ کے کسرتی بدن میں ابھی تک موجزن ہے مگر وہی جنس جو کبھی اس کی بیوی کے لیے زندگی کا سامان تھی ،ایک عمر گزارنے اور بدنی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد تعفن چھوڑنے لگتی ہے۔ سلور شیلڈ کے لیے دونوں طرف وہی دو بدن ہیں ، اےک لطف دینے والا اور دوسرا لذت کشید کرنے والا مگراس کی محبوب بیوی کے لیے اب دونوں کے معنی بدل گئے ہیں ۔ اب اس کے لیے اپناوجودقانونی تقاضے پورے کرتی فاحشہ کے جسم کا سا ہوگیا ہے اور سلور شیلڈ کااپنی بیوی کے ذہنی درجات سے ناواقف بدن، ایک وحشی درندے کا سا ۔
” چاروں طرف بکھرے خشک پتوں کے ڈھیر اک ذرا سی چنگاری سے ایسے بھڑکے کہ ساراگولڈن فاریسٹ پارک دہکتا جہنم بن گیا۔ دو گھنٹے بعدجب مسز میکڈانلڈخواتین کی محفل کی کارروائی نمٹاکر گھر لوٹیں تو باہر سڑک پر پولیس کی گاڑیاں اور ان کے درمیان سلور شیلڈ کو ہتھکڑیاں لگی دیکھ کر کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔ ان کے استفسار پر پولیس افسر نے انہیں بتایا کہ مسڑسلور شیلڈ نے جنسی آسودگی کے لیے اپنی بیگم کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ہے۔“
میں نہیں چاہتا کہ ساری کہانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہوئے میں آپ کو مطالعہ کے اس کنوارے لطف سے محروم کردوں جس میں ہر پڑھنے والا اپنے اپنے حوالوں سے معنیاتی سلسلے نکالتاچلا جاتا ہے ۔ لہذااس تجزیے کو روک بس اتنا کہناچاہوں گا کہ جاوید پاشا کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور ٹریٹ منٹ کا نیاپن بھی ۔اس مجموعے کی سب کہانیاں اس لائق ہیں کہ عوام الناس میں مقبول ہوں اور ادب کے خاص قارئین بھی انہیں توجہ سے پڑھیں سوائے اےک کے ۔ جی مےرا اشارہ ”لکن میٹی“ کی طرف ہے جو شاید اس مجموعے کی کمزور ترین کہانی ہے۔ اگرچہ اس میں بھی بیانیہ مضبوط اور رواں ہے مگربادلوں کی رحمن کے ساتھ دوستی کا یہ منظر نامہ ہمارے یقین کو گرفت میں نہیں لے پایا ۔ اوہ، کہیں آپ میری اس بات سے یہ تخمینہ نہ لگا بیٹھیں کہ میں شاید کہانی میں انسانی تجربے میں نہ آنے والے واقعات کو معیوب سمجھتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے صاحب ،کہ محض زندگی کے عمومی تجربے تک افسانے کی اقلیم کو محدود رکھنا ظلم کے مترادف ہوگا۔ افسانہ دیوار کے پرے دیکھ سکتا ہے۔ ان چھوئے مناظر کو گرفت میں لا سکتا ہے ۔ حتی کہ ان ہونی کو ہوتا دکھا کر اسے ہونی شدنی کے درجے پر بھی فائز کر سکتا ہے مگر ایسے افسانوں کا قرینہ مختلف ہوجایا کرتا ہے ۔محض ٹھوس حقیقت نگاری کا وسیلہ ایسے میں اکثر مات کھاجاتا ہے۔ ایک سطح پر پھسلتا چلتا بیانیہ وہ التباس پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتا جو سامنے والے مفاہیم دھندلاکر ان کے اندر سے ذرا مختلف معنی کا التباس اچھال دے ۔یہیں مجھے انتظار حسین کی ایک کہانی ”بادل“ یاد آرہی ہے ۔ اس میں بھی ایک بچہ بادلوں کی تلاش میں نکلتا ہے ۔ جب وہ بادلوں کی جستجو میں ادھر ادھر بھٹک کر واپس گھر آتاہے تو بادل اس کے گھر پر برس کر جا چکے ہوتے ہیں ۔ اچھاوہ التباس جس کا میں نے اوپر ذکر کیا اس افسانے کے باب میں کام کررہا ہے۔ یوں کہ کوئی چاہے تو اس افسانے سے یہ بھی اخذ کر سکتا ہے کہ بچے کی طلب اتنی سچی اور شدید تھی کہ بادلوں کو اس کے گھر آکر برسنا پڑا ۔ خیر جاوید پاشا کی اس کمزور کہانی کا قاری اگر بدل دیا جائے تو یہی کہانی کامیاب بھی چابت ہو سکتی ہے ۔ جی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اسے بچے پڑھیں گے تو یہ کہانی ان کے دل میں بھی جگہ بناسکتی ہے ۔
مجموعی اعتبار سے دےکھیں تو جاوید اخترپاشا کی کہانیاں اردو افسانے پر ا جنبی فضاکے ا نوکھے جہاں کو کھولنے اور پرائے ماحول میں انسانی حسیات کی کارگزاری کوگرفت میں لینے سے عبارت ہوتی ہیں ۔ کرداروں کو نہایت سلیقے سے تراشا گیا ہے ۔ بیانیہ صاف اور رواں ہے ۔ اور واقعات میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ کی بہ جائے انہیںوقت کے بہاﺅ کے تابع رہنے دیا گیا ہے ۔ ان قرینوں کو بروئے کار لاکر جاوید پاشا نے ایسی اہم کہانیاں لکھ دی ہیں جو قاری کی توجہ کھینچ لینے اور ان میں مقبول ہونے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہیں ۔ میں جاوید پاشا کی اردو افسانے سے اس سچی لگن پر بہت سرشار ہوا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ اس کا قلم اسی دھج سے رواں دواں رہے ۔
محمد حمید شاہد
۳۰ اپریل ۲۰١۰، اسلام آباد

Followers