Saturday, March 28, 2009

جمیل احمد عدیل کے افسانے

محمد حمید شاہد
ہاویہ کے افسانے


’موم کی مریم“ ” زرد کفن میں نخل ایمن“ اور”بے خواب جزیروں میں“ کی کہانیوں کو پڑھتے ہی میں نے جمیل احمد عدیل کا شمار گذشتہ ربع صدی میں اپنی شناخت مرتب کرنے والے ان اَفسانہ نگاروں میں کر لیا تھا جن کا مسئلہ محض وجود کی لذت نہیں ہے ۔ ایسے تخلیق کاروں کو ماورا کا علاقہ اچھا لگتا ہے۔ جمیل احمدعدیل کو بھی یہی بستی بہت لبھاتی رہتی ہے کہ اسی بستی میں رہ بس کر اس کے وجود پر نفی اور اثبات کی پھوار برستی ہے۔ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ ہمارے اس افسانہ نگار کے نزدیک مردہ روحانیت ادب کے بطن میں وہ مردہ بچہ ہے جواندر ہی اندر گل سڑ کرتخلیقی عمل کے وجود کے لیے زہر قاتل بن جاتا ہے ۔ ”ہاویہ “ کی کہانیوں میں اس نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ استخوانی ڈھانچے پر مٹھی بھر گوشت مڑھ کر اس میں اشتہا کی آگ بھر دینے سے آدمی نہیں بنا تھاکہ اس کے پاس دل اور دماغ دونوں ہیں۔ ایک دھڑکتا ہے تو دوسرا سوچتا ہے ۔ ایک لپکتا ہے تو دوسرا منطق مانگتا ہے۔ اسی پورے آدمی کی کہانی کو جمیل احمد عدیل نے کچھ اس قرینے سے لکھا ہے کہ حقیقت اپنی جون بدل کر دیکھتے ہی دیکھتے حکایت ہو گئی ہے ۔ صاحب خدا لگتی کہوں گا کہ وہ افسانہ نگار جن کے پاس پوچھنے کو کوئی بڑا سوال نہیں ہوتا ان کی کہانیاں انجام کار‘ہوسناک بڑھیا چٹائی کا لہنگا‘ کی مثل ہو جاتی ہیں۔ کیا یہ بڑی بات نہیں ہے کہ جمیل احمد عدیل کے ہاں واقعہ محض چھل بٹا نہیں رہتا دانش کا چق ماق ہو جاتا ہے ۔ عقل کیا ہے اور ارداہ کیا؟ نئی اسطورہ کے مقدر میں عبرت کی حکایت بننا ہی کیوں لکھ دیا گیا ہے؟یہ جو آدمی معدوم ہو رہا ہے تو اس کے کیا معنی ہیں؟‘ جب قدموں تلے کی مٹی اچھلنے لگتی ہے تو وجود کی تختی پر کیا نقش بنتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو اس کے افسانوں میں ڈھل کر ایک بنیادی سوال کا حصہ ہو جاتے ہیں ‘ یہی کہ یہ ناس مارا آدمی آخر ہے کیا اور اس موئے کی حقیقت کیا ہے؟؟ .... جمیل احمد عدیل میرے لیے یوں بھی لائق توجہ ہو گیا ہے کہ اس نے کہانی کے متن میں سوال کی آنچ رکھنے کی للک میں واقعہ کے ساتھ ساتھ زبان اور بیان کو بھی اپنے ڈھنگ پرلا کر مختلف کرلیا ہے ۔

Tuesday, March 3, 2009

حفیظ خان کے افسانے

وہ افسانے جو ایک مرد ہی لکھ سکتا تھا
حفیظ خان کی کتا ب.....یہ جو عورت ہے...کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد

ایک مکالمے کے دوران اشفاق احمد نے فرمایا تھا:
”جنس سے انسان، خاص طور پر مرد کبھی نہیں تھکتا۔ وہ اس میں دور تک چلا جاتا ہے، دیر تک رہتا ہے۔“
اشفاق احمد کا یہ جملہ مجھے حفیظ خان کے افسانوں کے مجموعے ”یہ جو عورت ہے“ کو بغور پڑھنے پر یاد آیا، چودہ افسانوں کی اس کتاب میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے، اپنے آپ سے وابستہ کر لیتی ہے۔ صرف لذت، رنگ اور خوشبو کے چھینٹے ہی نہیں اُڑاتی، کئی سوالات بھی اٹھاتی ہے۔
عورت کے بارے میں ایسے سوالات جو صرف ایک مرد ہی بہتر طور پر اٹھا سکتا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جو عورت اور مرد کے بیچ ہمیشہ سے رہے ہیں اور ہمیشہ رہ جانے کے لےے ہیں۔
ان سوالات کے سِکّے کھن کھناتے مرد اور اس کھن کھن کے بدن میں نئے نئے معنی کی روح اتارتی عورتیں، بظاہر اس دائرے سے نکلنے کا جتن کرتے دِکھتے ہیں مگر فی الاصل یوں ہے کہ وہ اِسی کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ عجیب لذت کا رہٹ ہے کہ ہر بار پڑجھے سے ہوتا، ہودی کے راستے ایسا غوغائی سیال مستقبل کے کھیتوں میں انڈیلا چلا جا رہا ہے جو رقیق ہونے پر وہیں جم جاتا ہے۔ نرم زمینوں کے اندر نہیں اُترتا ، نہ ہی آگے کو بہتا ہے کہ یوں بہے چلے جانا اس کی خصلت نہیں ہے۔ بس یوں کَہ لیجےے کہ یہ تو انسانی معاشرے کے کنویں کی خصلت ہے۔ ڈھیر بنتی ہوئی اٹ، بوسیدہ معاشرے کے تازہ کنویں کہ تہہ سے نکل کر باہر پھسلن بناتی اٹ ، کہ اس سے پھسل پھسل کر گرنا اور اس کی بُو کو سانسوں میں یوں رچا بسا لینا کہ وہ خوشبو کا سارا احترام پالے، دونوں جانب کی فطرت کا حصہ ہے اور ”یہ جو عورت ہے“ کہ کہانیاں ہیں، یہ اسی فطرت کا قصہ ہیں۔
اشفاق احمد کو ایک بار پھر یاد کر لینے دیجےے کہ ان کی کہی ہوئی ایک اور بات دہرانے کا موقع نکل آیا ہے، فرماتے ہیں:
”جنس ایک بڑی طاقت ور اور بڑی پاکیزہ چیز ہے۔“
پھر اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں:
”یہ میری creation کی باعث ہے، دیکھیں جی! میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، یہ جنس اس کے پیچھے کارفرما تھی تو میں تشریف لے آیا ہوں۔ لہٰذا میں اس کا احترام کرتا ہوں۔“
اشفاق احمد جس جنس کا احترام کرتے ہیں وہ اِدھر اُدھر اہلے گہلے نہیں پھرتی کہ بقول ان کے:
” ایک جنس کا لیول زمین کی طرف جانے کا ہے اور ایک جب میں پورے کا پورا lowest level سے اوپر اٹھتا ہوں، فٹ بال کی طرح ، تو میری جنس کا یہ لیول ہے۔“
”یہ جو عورت ہے“ کی کہانیوں کے بیشتر مرد اور عورتیں، جنسی کششِ کیمیائی کے اثر میں ہیں تاہم مردوں کا سفر ڈھلوان کا ہے، گرنے کے بعد مسلسل گرے چلے جانے کا۔ جب کہ عورتوں کے حوالے سے یہاں بوقلمونی کا سماں ہے۔ اس spin ہوتی گیند کی طرح، جو ہر بار اچھلنے پر اپنی سمت بدل لیتی ہے یا پھر شعبدہ باز کے اس کھدو کی طرح جو اپنے مالک کی ہتھیلی سے مس ہو کر ہر بار نیا رنگ بدل لیتا ہے۔
اس مجموعے کے پہلے افسانے ”کس کے ساتھ“ کی عورت کو دیکھےے۔ ایک مرد کے پہلو سے غائب ہو کر دوسرے مرد کے پہلو میں نمودار ہو جاتی ہے۔ عورت، اپنے اندر کے رنگ اور چلن بدل لینے والی عورت کچھ ایسی خصوصیات رکھتی ہے کہ اپنی جنس کو lowest level پر تربیت دینے والا مرد مشتعل ہو جاتا ہے اور جب وہ برزخ میں ہکّابکّا بیٹھا ہوتا ہے تو پہیلی بن جانے والی اپنی ہی عورت کے بارے میں سوچے جاتا ہے اور الجھے جاتا ہے۔ اس کہانی میں مرد اور عورت کی قدرے مختلف نفسی جبلّتوں کی نفسیاتی سطح پر تفہیم کی کوشش نظر آتی ہے۔ کیا معاملہ اتنا سادہ ہے جتنی سادگی سے بیان کر دیا گیا ہے ، شاید نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ افسانہ نگار، تین پونڈ وزن اور بارہ ارب خلیوں والا دماغ رکھنے والے مرد کو اس قابل نہیں سمجھتاکہ وہ اپنے سے چار اونس کم وزن کا دماغ رکھنے والی عورت کے گنجھل کو پوری طرح سمجھ سکے۔ یہ گنجھل کیوں ہے، کیسے ہے اور کہاں ہے۔ اس افسانے میں اس کی تِہہ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس افسانے میں وہاں ایک اور کہانی اپنا آغاز پاتی ہے جہاں چوکیدار بجلی کی سی تیزی سے تپائی پر رکھے ہوئے ریوالور کی طرف جھپٹتا ہے اور ریحانہ ”نہیں نہیں “ چیختی مزاحم ہو جاتی ہے۔ کہانی کے بیچ دوسری کہانی میں چوکیدار کو موت کی گھاٹ اتارنے والا مرد، اپنی ہی عورت کی نفرت کے لاوے سے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ یوں عورت ایک نئی گنجھل لے کر سامنے آتی ہے۔
”حاصل جمع “ کی کہانی probability کی گھمن گھیری سے جو net result برآمد کرتی ہے، وہ اپنی جگہ دل چسپ سہی مگر مجھے اس کہانی کے غیر مکلّف بیانےے نے بہت لطف دیا ہے۔
”آٹے کی عورت“ وہ پہلی کہانی ہے جہاں افسانہ نگار سنبھل کر کہانی کے اندر بہ نفسِ نفیس اترتا ہے اور وہاں تک چلا جاتا ہے جہاں عورت اور مرد اپنی اپنی جبلّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ یہاں آٹا گوندھتی آپا رضیہ ہے جو خالص جنس بن جاتی ہے، آٹے کے پیڑے جیسی ، ایک ”مکی“ اور ایک ”تھاپے“ پر پھسل جانے والی، دہکتے تنور کی تپتی دیوار سے گرم گرم اتر کر ایک مرد کی لذت کا نوالہ بن جانے والی۔ سب کچھ کہانی میں نہایت چابک دستی اور سلیقے سے بتایا گیا ہے اور جہاں عورت کی سائیکی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا ہے وہاں مرد کی فطرت کو بھی کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ کیسے ایک بچہ کولہوں پر سوار ” آپا آپا“ کہتے نہ تھکتا تھا اور کیسے شب و روز نگل کر گھبرو بن جانے والا وہی بچہ آپا کو فقط جنس کا استعارہ بنا دیتا ہے۔ کاش افسانہ نگار وہیں تک محدود رہتا جہاں آنسوو ¿ں سے explicit ہوتی آپا کے جذبے جون بدلتے ہیں اور اس کے قدم جنس کی لذیذ طلب سے نڈھال ہو جانے والے مرد کے دروازے پر آہٹ پیدا کرتے ہیں کہ اس کے بعد اس کا گِرنا اپنی عظمت کے فلک سے ذلّت کی پاتال میں گِرنا ہو جاتا ہے جو قاری کو اس کے قریب لے جانے کی بجائے repel کرتا ہے۔ تاہم یہ بھی تو عورت کا ایک روپ ہے کہ اپنے قدموں پر کھڑی رہتی ہے تو آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہے اور جب گِرتی ہے تو وہاں تک گِرے چلی جاتی ہے جہاں تک اِسے گِرانے والا گِرانا چاہتا ہے۔
”مائی بڑھیا کا گھوڑا “ کی عورت یوں مختلف ہے کہ وہ گِرانے اور چبا ڈالنے کا ہنر جانتی ہے۔ ”آٹے کی عورت“ کی طرح اس کہانی کی عورت بھی مرد سے عمر میں بڑی ہے، سات برس بڑی مگر اس سے کہیں مختلف ہے، رشتے بدل جانے سے بڑی عمر کی عورت کیسے مختلف ہو جاتی ہے، ان دونوں کہانیوں کو ساتھ ساتھ پڑھنے سے یہ عقدہ پوری طرح کھُل جاتا ہے۔
”تن من سیس سریز“ کی مائی جنداں بھی ادھیڑ عمر کی ہے، گوشت پوست کا پلپلا پہاڑ۔ مگر اس کہانی کا اصل موضوع عورت نہیں، وہ مرد ہے جو عورت کی طلب میں یوں اندھا ہو گیا ہے کہ اوندھا جا پڑتا ہے۔ ساری عمر خود کو یوسفِ ثانی سمجھنے والے بوڑھے مرد کی روش دیکھ کر قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مرد تو بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اس کی جنس کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔
افسانہ ”قابل“ کا مرد جنس کے کچوکے کھا کر گِرنے والے مراد سے مختلف مرد ہے، بہت مختلف۔ بلکہ وہ مرد ہے ہی نہیں۔ آدمی عمر گزار چکنے کے بعد ماں کے اصرار پر دسویں جماعت کی طالبہ سے بیاہ رچا لیتا ہے تو کہانی کا المیہ کھُل کر سامنے آجاتا ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جو اس معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ کہانی کا اختتامیہ اپنے مرکزے سے گہری وابستگی نہ رکھنے کے باوجود رِستے زخموں کی بھرپور نشان دہی کرتا ہے۔
”دھوپ دیوار“ میں سرے سے کوئی مرد ہے ہی نہیں، وہ مرد جو سہارا بنتا ہے، بن سکتا ہے یا جس سے سہارا بننے کی اُمّید باندھی جا سکتی ہے۔ اِدھر اُدھر جو مرد ہیں، وہ تماش بین ہیں تالیاں پیٹنے والے، ٹوہ میں رہنے والے یا پھر رالیں بہانے والے۔ تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کہانی کی عورت خود مرد بن جاتی ہے۔ ”لاہور جان“ کہانی کی عورت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مرد بن سکے ۔ لہٰذا عبرت کا نشان بنا دی جاتی ہے۔
”جنت ، حور ، قصور“ کے مولوی عبد القدوس کا واسطہ دو عورتوں سے پڑتا ہے، گھر کو جنت بنانے والی عورت سے اور آندھی کی طرح آ کر گزر جانے اور تہس نہس کر دینے والی عورت سے بھی۔ یہاں تک کہ مرد بے بس ہو جاتا ہے اور رو دیتا ہے۔ مرد کا اس کہانی میں رو دینا عورت کو زندگی میں واپس لانے کے لےے ہے جب کہ ”آٹے کی عورت“ کے مرد کے آنسو عورت کو گِرانے اور پامال کرنے کے لےے تھے۔ مرد کے آنسوو ¿ں کی دو سطحوں پر یہ تفہیم بجائے خود دل چسپ ہو گئی ہے۔
”غیرت “ کا عنوان پانے والی کہانی میں جابر مرد کی جہالت کو انتہا پر دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کی فضا میںعورت صرف عورت ہونے کے سبب مرد کے لےے قابلِ نفرت ہوجاتی ہے۔ جب کہانی کی عورت قتل ہو جاتی ہے تو مرد اپنے کےے پر نادم ہونے کی بجائے اسے اپنی غیرت کا تقاضا سمجھ بیٹھتا ہے۔
”بزدل“ کی شمسہ بھی موت سے ہمکنار ہوتی ہے۔ نہانے کی چوکی پر بیٹھی خود پر پانی انڈیلتی شمسہ کو دیکھ لینے والا مرد لمحہ بھر کو نادم ضرور ہوتاہے مگر جلد ہی جنس کے چٹخارے لیتا اور اندھا دھندآگے ہی آگے بڑھنے لگتا ہے۔ حتّٰی کہ ایک عورت اپنی عزت پر اپنی زندگی قربان کر دیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موت کو یوں کھلی بانہوں میں سے گلے لگا لینے والی عورت ہی ہماری تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔
”باری باری سرکار“ کی عورت کی لغت میں عزت کا وہ مفہوم نہیں ہے جو شمسہ کے ہاں ہے۔ اس کہانی کی مس تبسم ایک ہی وقت میں کئی مردوں کو بہلانے کا ہنر جانتی ہے، ایک ساتھ نہیں الگ الگ ۔ ”اُلّو“ کے عنوان سے لکھے گئے افسانے کی مدیحہ بھی ایسی ہی عورت ہے مگر وہ ایک ہی وقت میں کئی مردوں کے بیچ ناٹک رچا سکتی ہے۔ کہ یہی کچھ اسے مرد نے سکھایا ہوتا ہے۔
ایک کہانی جس کا تذکرہ ہونا باقی ہے، وہ ہے ، ”یہ جو عورت ہے“ یہ کہانی اس مجموعے کا عنوان بھی بن گئی ہے۔ اس کہانی کو پڑھنے والے کے سامنے ایک سوال ضرور آکھڑا ہوتا ہے کہ ”کیا یہ افسانہ ہے؟“ یہ ایسا سوال ہے جو گزری دہائیوں میں اسی قبیل کے فن پاروں کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ اٹھا یا جاتا رہا ہے۔ اِتنے تواتر کے ساتھ کہ اب اس میں سے اس کے معنی نفی ہو گئے ہین۔ ”جو ہے، جہاں ہے“ کے اصول پر بہت کچھ قبول کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں افسانے کا بیرونی احاطہ دھندلا گیا ہے۔ اِسی دھندلے احاطے میں ”یہ جو عورت ہے“ رکھ لیجےے کہ اس فن پارے میں فی الاصل کہانی کے خد و خال سے زیادہ اس کا مواد، اہم ہو گیا ہے۔ اس کہانی کا مواس بھی عورت ہے۔ اپنی جنس کے سبب معتوب ہونے والی، sexual exploitation کی شکار بدنصیب عورت۔ وہ عورت جس سے پنڈت رام داس ہو یا فادر جوزف، سنت گرنام سنگھ اور عبدالقدوس سب ہی نفرت کرتے ہیں۔
” یہ جو عورت ہے“ کے افسانے پڑھنے کے بعد مجھے یوں لگا ہے جیسے اس پوری تہذیب کو بچائے رکھنے والی، مثبت قدروں پر اِسے چلانے کے جتن کرنے والی، اپنے قدموں تلے جنت رکھنے والی، ایثار پیشہ اور نیک طینت عورت کی کہانیاں یا تو ابھی حفیظ خان کو لکھنی ہیں یا پھر وہ سقراط کی طرح ڈنڈی مار گیا ہے۔
یہ سقراط کی طرح ڈنڈی مارنے والی بات شاید آپ تک پوری طرح پہنچ نہیں سکی، لہٰذا سقراط کا قصہ بھی سن لیجےے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ایتھنز کے لوگ سقراط سے بحث مباحثہ کے لےے کسی نہ کسی سیانے کو لے کر پہنچ جایا کرتے تھے کہ بحث مباحثہ ہو، وہ تماشا دیکھیں کون جیتتا ہے۔ ایکدفعہ یوں ہوا کہ لوگ ایک ایسے کاروباری شخص کو لے کر اس کے پاس پہنچ گئے جو بہت راست باز تھا۔ سقراط نے پوچھا ”اے شخص ، کاروبار میں راست بازی کیا ہوتی ہے۔“ اس کا جواب تھا۔ ”لین دین ٹھیک ٹھیک کیا جائے، ادھار اور امانتیں وقت اور وعدے پر لوٹا دی جائیں۔“ اب سقراط کی باری تھی، کہا۔ ”بھلے آدمی بعض اوقات درست درست ادئیگی راست بازی کے منافی ہو جاتی ہے۔“ لوگوں نے تمسخر سے قہقہہ لگایا۔ پھر بھنبھناہٹ سنائی دی۔ ”بھلا راست بازی بھی کہیں غلط ہو سکتی ہے!“ سقراط نے کہا ”ہاں! دیکھو تمہیں ایک شخص کو اس سے مانگا ہوا لتھیار لوٹانا ہے، طے شدہ تاریخ آجاتی ہے۔ تم ہتھیار لے کر پہنچ جاتے ہو، حالانکہ وہ شخص ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے ۔ اب اگر تم ہتھیار اس کے ہاتھ میں تھما دو گے تو کیا وہ شخص لوگوں کی گردنیں نہ مارتا پھرے گا۔“
تو صاحبو! یہ جو جنس ہے نا، یہ بھی کہیں کہیں مہلک ہتھیار کی طرح ہو جاتی ہے۔ خصوصاً وہاں جہاں پہلے ہی معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو۔
حفیظ خان نے کہانیوں کے بیچ کہیں کہیں سقراط کی طرح ڈنڈی مارنے کو ترجیح دی ہے تاہم اب شایدکی بہت زیادہ ضرورت ہو گئی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کا ہر ادارہ جنس کی دلدل میںاس معاشرے کو وہاں تک دھکیل دینا چاہتا ہے جہاں سینے پر چڑھی دلدل حلقوم سے آوازیں چھین لیتی ہے۔ جب لکھے ہوئے لفظ ہی نہ رہیں گے تو کیا معنی اور کیا معنی کے نئے نئے پہلو۔ حفیظ خان نے یہ کیا ہے کہ اپنے افسانوں میں دلدل نہیں بنائی۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی مصلحت نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ہو۔ اس نے عورت کی نفسیاتی تہیں کھنگالنے کا جو قصد کیا تھا اس میں بہت حد تک کام یاب رہا ہے۔ عورت کی اتنی بھرپور تصویر ایک مرد ہی بنا سکتا تھا۔
دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب ”نٹنی منم “ کا میرا جی نے اُردو میں ترجمہ کیا تو اس کا دیباچہ کھتے ہوئے سعادت حسن منٹو نے کہا تھا:
”.... سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو قلم بند کرنے والا ایک مرد ہے.... یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لےے کہ عورت خواہ وہ بازاری ہو یا گھریلو، خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا۔ “
حفیظ خان نے اس کی مقدور بھر کوشش کی ہے اور اپنی کہانیوں میں عورت کے بارے میںممکنہ انکشافات کر دےے ہیں۔ یہ کہانیاں زندگی کا سچ ہیں۔ وہ سچ جو کوڑے کی صورت پڑے پڑے تعفن پھیلانے لگتا ہے یا پھر وہ سچ جو حرامی بچے کی طرح ممتا سے محروم ہو کر گھروں کے آنگنوںمیں دبا دیا جاتا ہے۔ مجھے اُمّید ہے، اس سچ کاسامنا کرنے والے ، سارے اسباب و علل سامنے رکھے گے اور زندگی کی ان راہوں پر نکل کھڑے ہوں گے جہاں جنس تعفن نہیں چھوڑتی، خوشبو بن جاتی ہے اور حیات کے تسلسل کی علامت بن جانے کے سبب محترم بھی ہو جاتی ہے۔
(

Monday, March 2, 2009

مصطفی شاہد کے افسانے

مصطفی شاہد کے افسانے
مصطفی شاہد کےافسانوں کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
مصطفی شاہد کے افسانے محض واقعات پر انحصار نہیں کرتے یہ انسانی وجود کے اندر کے بھید وں سےمکالمہ بھی کرتے ہیں ۔ جب سے میں نے ”فاصلہ“ ”آخری صفحہ “” اپنی زندگی“ ”بےایمانی“”ردعمل“”مشکل“ اور”خون“ جیسی کہانیاں پڑھی ہیں میں اس کے قلم کی جادوگری کا قائل ہو گیا ہوں ۔ سامنے کے مناظر اورماحول میں کرداروں کورواں دواں رکھنا اور چلتے واقعات کے اندر سے زندگی کرنے کا قرینہ نکال لانا‘ پھر اس عمل کو انسانی نفسیات کی الجھنوں سے جوڑ دینا‘ یوں کہ کرداروں کے کے اندر کے تضادات واضح ہوتے چلے جائیں بڑی ہنرمندی کا کام ہے ....اور .... لطف کی بات یہ ہے کہ ادبی مراکز سے دور رہ کر کہانی کی محبت میں اسیر ہوجانے والے اس فنکار کو یہ ہنر آتا ہے۔ آدمی آخر ہے کیا ؟.... یہ وہ بنیادی سوال ہے جس نے افسانہ نگار کو اندر سے بے چین رکھا ہوا ہے ۔ کہانی ”خون“ میں وہ انسانیت کا دعوی رکھنے والے ایسے جارح جتھے کا ذکر کرتا ہے جس نے بیروت پر بارود برسا کر اسے تہس نہس کر ڈالا ہے اور اس کے مقابل انہی میں سے ایک یہودی کردار ایرون کو لاکھڑا کرتا ہے جو ملبے سے لاشےں نکال رہا ہوتا ہے تووہ محض یہودی نہیں رہتا انسانیت کا نمائندہ ہو جاتا ہے۔ کہانی ”مشکل‘کا آسانیاں پیدا کرنے والا انیق ہو یاپھر اپنے اللہ کو اپنی بپتا سنانے اورتسبیح کے دانے گھمانے والا طاہر‘دونوں کہانی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے اپنی خو بدل لیتے ہیں ۔ افسانہ ”ردعمل“ میں باپ کو اپنی کجیاں نظر نہیں آتیں مگر بیٹے کے عیب اس شدت سے کھٹکتے ہیں کہ وہ اسے پیٹ ڈالتا ہے ۔ ”بے ایمانی“ میں یہی کہانی ڈاکے مارنے والوں کے بیچ دھرائی جاتی ہے۔ ” اپنی زندگی“ میں اپنے ڈھنگ سے جینے کا وہ ہنر سکھایا جارہا ہے جس کی راہ خود آدمی نے اپنے آپ پر مسدود کر رکھی ہے جب کہ”آخری صفحہ “ میں قدرت کے اس کھیل کاقصہ کہا گیا ہے جو وہ آدمی کے ساتھ کھیلتی ہے ۔ ”خون “ کے سوا لگ بھگ ہر کہانی میں مصطفی شاہد کا آدمی آخر میں مات کھا جاتا ہے ۔ یوں نہیں ہے کہ سے آدمی کا مات کھانا مرغوب ہو گیا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یوں آدمی کا پچھڑنا اسے کھلنے لگا ہے ۔ اسی بے قراری اور بے کلی نے اس کی کہانی کو انسانی نفسیا ت اور فکری الجھاووں سے جوڑ دیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ واقعہ لکھنا تو آدمی کوشش سے اور مشقت سے سیکھ سکتا ہے مگر انسانی دکھوں کو لکھنے اور انسانیت کی راہ کے رخنوں پر اس وقت تک لکھا ہی نہیں جا سکتا جب تک یہ سب آشوب تخلیق کار کے وجود کا اپنا مسئلہ نہیں ہو جاتے ۔ میرے لیے اس با صلاحیت افسانہ نگار کے یہ فن پارے یوں بھی بہت اہم ہو گئے ہیں کہ وہ واقعہ نگاری کی لذت کا اسیر ہوئے بغیر کہانی کہنے اور انسانی وجود کے بھیدبھنور اجالنے پر قادر ہو گیا ہے ۔
٭٭٭

یعقوب شاہ غرشین کےافسانے

آخری آنسو اور دوسری کہانیاں
یعقوب شاہ غرشین کےافسانوں کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
کالیاں اِٹاں کا لے روڑ مینہ وَسادے زور و زور
جب میںنے یعقوب شاہ غرشین کا افسانہ ”آخری آنسو“ پڑھا تو طویل خشک سالی کے سبب پورے بلوچستان میںبکھراموت کا سامنظر میری آنکھوں میں سمٹ آیا ۔ یہ وہی منظرتھا جو کچھ عرصہ پہلے ہی میں نے خودا پنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بے کنار دُکھ اپنے دل میںسمیٹ لایاتھا۔ تب سے اب تک ٹی ایس ایلیٹ کی معروف نظم”
THE WASTE LAND“
کے وہ حصے بہت یاد آتے ہیں جن میںپانی باقاعدہ مرتاہوا نظر آتا ہے اور مارتا ہوا بھی:
”۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جوزندہ تھا ‘سومرگیا اور جو زندہ ہیں، سواب مررہے ہیں۔۔۔۔۔ َ“
”آخری آنسو “ کا آغاز ملاحظہ ہو:”ما....ں .... پا.... نی .... “ یہ لق ودق صحراکے وسط میں فاقہ زدہ ماں کی چھیچڑا چھایتوں کو چچوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ایک لاغر بچے کے خشک حلقوم سے نکلی ہوئی آواز ہے جوپوری کائنات کو چیرکر رکھ دیتی ہے .... یوں ، جیسے ایک تیز خنجر بدن کا ماس چیرتاہے: ”ما....ں....پا....نی....“
میں منہ ہی منہ میں تیز تیز دہرانے لگتا ہوں ....
” کالیا ںاِٹا ںکالے روڑ.... “
بارشوں پر مکمل انحصار کرنے والے علاقے کا باسی ہونے کے سبب میں بچپن سے دیکھتا آیاہوں کہ یہاں کے بوڑھے ہوں یا جوان ،مردہوںیا عورتیں اور بچے سب ہاڑی ساونی آسمان کی طرف اپنی اپنی خالی اوک اُٹھاکر پانی کی دعائیں مانگا کرتے ہیں .... پانی برسنے کی یا پھر پانی سے پناہ کی .... کہ بارانی علاقوں میں پانی ہی سب کچھ ہوتاہے.... وقت پر برسے توزندگی عطاکرتاہے۔ بے حساب اور بے وقت برسے یا بالکل نہ برسے توبدنوں کو موت کی پھپھوندی لگ جاتی ہے۔ اِسی منظر کی وسعت اور شدت میں نے بلوچستان جاکر دیکھی اورپہلی دفعہ اندازہ ہواکہ اِدھر کے بارانی علاقوں کا دکھ توکچھ بھی نہیںہے۔ ایک دفعہ پھر ایلیٹ کی لکھی ہوئی سطریں ذہن میں گونجنے لگی ہیں
:Here is no water but only rock Rock and no water and the sandy road The road winding above the mountains which are mountains of rock without water
ایلیٹ نے لکھاتھا :
I see the eyes but not the tears
اور یعقوب شاہ غرشین نے اپنے افسانے کا عنوان رکھا ہے....’آخری آنسو“۔
سرجیمس جارج فریزر کی ”شاخ زریں “ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ دنیا بھر میں بارش کے لیے لگ بھگ ایک سے ٹونے ٹوٹکے کئے جاتے ہیں .... پتھرو ں کو ، دیوتاو¿ں کو ، گیہوں کی بالیوں کو یاپھر خود آدمی کو بھگونا اور آسمان کی طرف اُمید سے دیکھنا ۔اِسی کتاب میں ایک جگہ لکھاہے کہ اٹلی کے ایک فرا نسسکی ولی کو کسانوں نے پالر مو کے خشک ہوتے باغ میں لابٹھا یا تھا۔لکاتا کے ولی سینٹ انجلو کے ساتھ اس سے بھی براہوا ۔اس کے کپڑے نوچ پھینکے گئے اور اُسے مادر زاد ننگا کرکے گھونسے دکھا دکھا کر نعر ے لگائے گئے.... .... ”پانی یا پھانسی “۔ میں نے بچپن میں یہ منظر دیکھ رکھا ہے کہ.... ایک بوڑھی عورت جو سب کو ننگی گالیاں بک رہی تھی‘ لوگ اُسے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پراُ ٹھا کر گلیوں میں گھمائے پھرتے تھے۔ہر گھر کے درواز ے سے اُس پر پانی پھینکا جاتا.... پانی جو ختم ہو رہا تھا.... وہ گالیاں بکتی ۔ننگی گالیاں .... اور پانی پھیکنے والے آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر زور زور سے گاتے تھے
: ”کالیاں اِٹاں کالے روڑ مینہ َوسادے زور و زور “
اور مینہ چھم چھم برسنے لگتاتھا ۔ جب یعقو ب شاہ غرشین نے اپنے اِس افسانے میں لکھا کہ ”موت زندگی پرفتح حاصل کرلیتی ہے“ تو یقین جانیے مجھے سنسان صحرا کے وسط میں اپنے بچے کے ساتھ مردہ پڑی ماں اس عورت کی طرح لگی تھی ‘جس پر چھاجوں پانی برسنا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ یہ ساراپانی اس کے آنسووں کا تھا جو اندرہی اندر برس گئے تھے .... ایک آخری آنسو بچا تھا جو اس کے بیٹے کے خشک حلق میں اتر کر اُسے کچھ لمحوں کی زندگی دے سکتاتھا مگر................، اب میراسینہ بند ہونے لگا ہے ، مجھے اُن لوگوں پر گراہم گرین کی طرح تعجب ہونے لگاہے جو لکھتے نہیں، شاعری اورمصوری نہیںکرتے مگر پھر بھی اس پاگل پن، جنون اورہیبت ناک انسانی صورتِ حال سے فرارکی راہ نکال لیاکرتے ہیں۔ یعقوب شاہ غرشین کی چودہ کہانیوں کے اس پہلے مجموعے کی پہلی تین کہانیاں موت سے مصافحہ کرتی ہیں ۔”آخری آنسو“ میں موت بھیٹر بکریوں کے ریوڑ کو .... مویشیوں کے گلے کو.... سرخ وسپیدسیبوں کو .... رس بھر ے انگوروںکو.... کاریز کے ٹھنڈے اورمیٹھے پانیوں کو .... زرین جان ‘اس کی بیٹی پلوشہ اور بیٹے احمدجان کو نگلنے کے بعد بے بس زینب اورننھے گل جان کو صحرا کی وسعت سے اُچک لیتی ہے۔ یہی موت ” شبِ ندامت “میں ایک مسافر کے وجود سے را ت کے اندھیرے میں ساری حرارت ڈکوس لیتی ہے جبکہ ” کابوس “ میں مقدربن کر آتی ہے.... ایسامقدر جو آدمی کے بخت میںبہر حال لکھا ہوتاہے اور آدمی ہے کہ اپنے مقدر کے لکھے کو بھول کر نا حق اُس سے بھا گتا رہتاہے۔ ”شب ِندامت “ میںجہاںایک ایسی اعلیٰ ظرف اور لمعان نسل کے چل بسنے کی دل دوز خبردی گئی ہے جو گھر کی چوکھٹ پر آئے دشمن کو بھی دوست کی طرح پناہ دیا کرتی تھی وہیں نئی نسل کی بزدلی اور جنس زدگی کا مکروہ چہرہ بھی دکھا یاگیا ہے ۔ یخ بستہ رات کو دروازے پر دستک ہوتی ہے جس کے ساتھ ہی کسی کے زور زور سے سانس لینے کی آوازبھی اندر رسنے لگتی ہے ، سانسوں کا اُتار چڑھا و¿ اور دروازے پر ہلکی ہلکی دستک سے وابستہ ہوجانے والا خوف اور لذت ایک موت پر منتج ہوتے ہیں۔ نیاآدمی یوں جنس زدہ ہوگیاہے کہ تہذیب کے سوپردوں میں رہنے والی جنس اب گلیوں اور بازارو ں میں آگئی ہے، کتابوں ، جریدوں میں اور سکرین پر اسے کھول کھول کربیان کیاجاتاہے اسقدر کہ نیا آدمی اِس سے لبالب بھرگیا ہے۔ اب اگر کسی مجبور کی دستک سے اسی جنس کی لذت کے چھینٹے اڑنے لگیں تو کیا تعجب ہے۔ جہاں تک نئی نسل کی بزدلی کا قصہ ہے تو یہ بات یعقوب شاہ غرشین ہی کو محسوس نہیں ہوئی بہت پہلے دستو فسکی بھی بھانپ گیا تھا، تبھی تو اس نے کہاتھا ”انیسویں صدی کا ہر آدمی بزدل اور غلام ہے۔“ اُس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا: ” ماڈرن آدمی بزدلی اور غلامی کے لیے بنایا اور سنواراگیا ہے۔ اِس زمین پر ہر تعلیم یافتہ آدمی کےلئے یہی قانونِ فطرت ہے کہ وہ بزدل اورغلام ہوتاہے۔ “ اِسی جنس اور غرض کے غلام کو ذہن میں رکھیے .... پرانی بُردبارنسل کو بھول جائیے جو دروازے پر آئے دشمن کو دوست بنالینے کا حوصلہ رکھتی تھی اور”شب ِندامت“ کے واحد متکلم کردار کی بابت سوچئے جس کے بدن میں لذت اور خوف دونوں اُترگئے تھے۔ کیایہ جنس زدہ بزدل شخص مَیں اور آپ تونہیں ہیں جو دوسروںکے مقدر میں موت لکھ دیتے ہیں۔ کہانی” کا بوس “میں موت اگر مقدر ہوکر آئی ہے تو ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دیتی ہے کہ اس سے بھاگنا بانجھ اذیت کے سواکچھ نہیں اور اس کی پناہ میں آجانا ہی پُرلطف عمل ہے۔ سچ پوچھیے تو موت اِس افسانے کے آخرمیں اتنی حسین اوردلکش ہوجاتی ہے کہ اس کی آغوش میںپناہ لینے کو جی چاہنے لگتاہے ۔ ”اعتراف “ ، ” دائرے میں سفر“، ”تلاش“ اور ” پیاسی روح “ ایسی کہانیاںہیں جو افسانہ نگارنے محبت کی پناہ میں آجانے کے بعد لکھی ہیں ۔ محبت ہماری نوجوان نسل کا محبو ب موضوع ہے مگر مجھے دُکھ سے کہنے دیجئے کہ بے تہذیب میڈیا کی یلغار نے اس نسل سے” محبت “ اور” اِشتہا“ میں تمیز کا شعور چھین لیا ہے تاہم یعقوب شاہ غرشین کا مسئلہ اس لااُبالی نسل کی بے توفیق محبت نہیں ہے کہ یہ تو اس محبت کا تذکرہ کرتاہے جودل میں درد کی طرح بسی ہوئی ہوتی ہے ۔ کہانی ” تلاش “ میں کیومینرو کے معبد میں میکورہ اِشی کے اندھے پتھر اور کیورہ اِشی کے محبت کے رازداں پتھر کے درمیاں یہی محبت سعی کرتی نظرآتی ہے اور کہانی ”پیاسی روح “ میں حاتم اور ڈیانا کا سوانگ بھرتی ہے جبکہ ” اعتراف‘ ‘ میں وفا کے چلے جانے کے بعد خالی صوفے پرگراہوا گلاب کا پھول بن جاتی ہے ۔ تسلیم کہ حُسن کا سارا اَسرار فاصلوںمیںہے ۔یہ بھی بجاکہ جو حاصل ہوگیا حسن سے محروم ہوا ، لطف گنوابیٹھا مگر محبت کا معاملہ کچھ اور ہے۔ محبت ایمان کی طرح ہوتی ہے، یہ برتنے سے بڑھتی ہے فاصلوں کی بادمسموم میں یہ مرجھا جاتی ہے اِسے تعلق کی بارشیں او رگرم جوشی کی دھوپیں چاہیں اور ہر مرحلے پر قربانیاں اس پودے کے لیے کھاد کی طرح ہوتی ہیں۔ اوریقین جانیے یہ خودبخود کبھی نہیںہوتی اِسے سیکھنا پڑتاہے۔ اِسے نومَو لود بچے کی طرح پالنا پوسنا پڑتا ہے، تب یہ جوان ہوتی ہے۔ خودبخود ہونے کا شائبہ رکھنے والی محبت کے بارے میں جان لیجئے کہ اوّ ل اول یہ یا تو فقط جنسی کشش ہوتی ہے، حیرت ہوتی ہے، مرعوبیت ہوتی ہے یا فقط دوسرے کو حق ملکیت میں لے لینے کی ہوس ۔ محبت تو اُس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب یعقوب شاہ غرشین اِن کہانیوں میںمحبت کوفاصلوں میں زندہ دکھانے کی سعی کرتے ہیں تو مجھے اُلجھن ہونے لگتی ہے خصوصاََ وہاں جہاں شادی جیسے مشرق کے مستحکم انسٹی ٹیوشن کی نفی ہونے لگتی ہے ۔کہانی ” تلاش “ میں ایسا نہیں ہے ۔یہاں محبت باقاعدہ ایک متھ بن گئی ہے اور کہانی کی آخری سطور تک پہنچتے ہیں تو یہی محبت پورے وجود میں لہوبن کردوڑنے لگتی ہے ۔ ” وہ کون تھا “ ایسی کہانی ہے جو بظاہرنانی اما ںکی سنائی ہوئی لگتی ہے ۔وہی اِنتظار حسین والی نانی اماںکی، ایسی کہانی جودن میں سنائی جائے تو مسافر راستہ بھول جائے۔ اس کہانی کا مسافر بھی راستہ بھولتا ہے۔ ” شبِ ندامت“ میں ایک ایسے شخص کا بیان ہواتھا جِسے پناہ نہیں ملی تھی جبکہ اس کہانی کے راستہ بھولے ہوئے مسافر کو پناہ مل جاتی ہے۔ کہانی ایک اسرار کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور نہ صرف حکمت کے دریچے کھولتی چلی جاتی ہے بلکہ ہمیںاس ماحول سے بھی آگاہ کرتی ہے جو دوسروں کا مان رکھنے والوں کے خلوص او ر محبتوں سے متشکل ہواتھا۔ ایسے میں کہانی جب یہ نتیجہ اخذکرتی ہے کہ کہانیوں کے جھوٹ سچ میں اسلاف کی روحیں متحرک ہوتی ہیں اور یہ کہ یہ روحیں ہم سے خوابوں کی طرح مخاطب ہوتی ہیں تومان لیجیے کہ کہانی کایہ جھوٹ عام زندگی کے سچ سے بھی کہیں زیادہ سچامعلوم ہونے لگتاہے۔ ایک سچ”یتیم کی دعا“ میں بھی بولا گیاہے مگر ” واشگاف “ ہونے کے سبب دل کی کسک نہیں بن سکا ۔اسی طرح کا معاملہ ” دیاسلائی ‘بندراور انسان “ کے علاوہ ”نیاانسان“ کا بھی ہے تاہم ان تینوں کہانیوں میں ”کرافٹ “سے زیادہ ان کا مواد اہم ہوجاتاہے۔ ”بڑھاپا“ ایسے شخص کی کہانی ہے جوزندگی بھر بہت اہم رہا اور جب وہ دوسروں کےلئے فقط ” بزرگ“ رہ گیا توخود کو مصروف رکھنے کے لیے ایک عجب خبط پال لیا یو ںیہ کہانی ایک کردار کاکا میاب نفسیاتی مطالعہ بن جاتی ہے۔ ” صدیوں کی قید“ کے عنوان سے لکھے جانے والے افسانے کا موضوع عمومی سہی مگر دیکھئے تو سہی اس میںیعقوب شاہ غرشین نے کس طرح ایک مظلوم کردار کو جیتا جاگتا بنا دیاہے۔جس طرح وہ بی اماں ملالئی کا حلیہ بیان کرتا ہے وہ پڑھنے والے کے دل پر نقش ہوجاتا ہے۔ ایک بوڑھی عور ت جس کاچہرہ جھریوںسے بھراہواہے، جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ہیں‘ جو بولتی ہے تو اس کے منہ سے سیٹیاں نکلتی ہیں اور جس کے ہاتھ بطخ کے پاو¿ں جیسے ہیں۔ ایسی عورت جو کبھی حسین تھی مگر اب ایسی کریہہ صورت ہوگئی ہے‘ کہانی ختم ہونے پر کیسے معدوم ہوسکتی ہے۔ وہ زندہ رہتی ہے اور پڑھنے والے کے وجود میںاترجاتی ہے۔ تاہم کردار نگاری یعقوب شاہ غرشین کے ہاں عمومی طورپر توجہ حاصل نہیں کرسکی کہ اسے تو اپنی بات کی تصویریں بنانے سے کہیںزیادہ اس کی للک رہی ہے کہ کچھ سوال اُٹھائے جائیں ،موت اورزندگی کا سوال ، مجبوری اوراختیار کا سوال، محبت اور تہذیب کا سوال،نئے آدمی اور پرانے آدمی کا سوال۔ یہ سب سوالات مل کر اُس کے افسانے کو اہم بنادیتے ہیں ۔ کہتے ہیں ایتنھز کے شمال میں واقع یونان کے قدیم شہر THEBESکے جوار میں SPHINXکا ڈیرہ تھا۔ اس کا سرعور ت اورجسم شیر کا تھا۔ سفنکس راہ روک کربیٹھی رہتی اور ہر آنے جانے والے سے زندگی کی بابت سوالات کرتی تھی ....یہ سوالات زندگی کے مراحل کے بارے میں ہوتے۔ کہانی کا معاملہ بھی کچھ ایساہی ہے یہ ازل سے ہماری راہ روک کر کھڑی ہے۔ عورت کی طرح حسین مگر شیر کے جگر والی ۔۔۔اور اس کے سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی ان کا ڈھنگ سے جواب نہیں دے پاتا ۔ سفنکس نے اعلان کر رکھا تھا کہ جوکوئی اسے درست جواب نہ دے پائے گا، موت اس کا مقدر ہوگی ۔ ہوتا یوں تھا کہ جو بھی اُدھر سے گزرتاتھا اپنی جان سے ہاتھ دھوتاتھا ۔ کہانی کے مقابل ہونا دراصل زندگی کے ُان سوالات کے مقابل ہونا ہوتاہے جن کے جواب ہمیں نہیںسوجھتے ۔میں سمجھتاہوں کہ جوافسانہ نگار ان سوالا ت کو بڑا مان کر انہی کاہوجاتاہے .... تَن مَن دَھن سے.... اس کی کہانی نئی زندگی پالیتی ہے۔ اور جو OEDIPUSکی طرح ان کے جواب دینے بیٹھ جاتاہے اس کی کہانی خودکشی کرلیتی ہے........، ذراپلٹ کر دیکھئے تو ........ گذشتہ ربع صدی سے پہلے خودکشی کرنے والی کہانی کی نعش سے کیا ابھی تک سڑاندنہیں اُٹھ رہی ....! اب تسلیم کر لیا جانا چاہیے کہ گذشتہ ربع صدی میں کہانی زندگی اور زندگی کے سوالات سے جڑکر زیادہ تو انااور زندہ ہوگئی ہے اورمجھے کہہ لینے دیجئے کہ اس میں نئی نسل کے لکھنے والوں نے بہت اہم کردار ادا کیاہے ۔ یعقوب شا ہ غرشین بھی افسانہ نگاروں کی اِسی باکمال پیڑھی سے تعلق رکھتاہے۔ وہ فکشن کے حوالے سے معروف شہروں سے دوررہتے ہوئے بھی افسانے کے مزاج میں درآنے والی تبدیلیوں سے خوب آگاہ ہے ۔ وہ زندگی کو درپیش سوالات کو کہانی کے مقابل لاکھڑا کرنے کا حوصلہ اور ڈھنگ رکھتاہے۔ اس کے ہاں تخلیقی منہاج اور انفرادی تجربہ دولخت نہیں ہوتے آمیخت ہوجاتے ہیں یہی سبب ہے کہ اپنی تخلیقی زندگی کے عین آغاز ہی میں وہ انتہائی اہم کہانیاں لکھ کر قابل توجہ افسانہ نگار بن گیا ہے ۔

عابدہ تقی کےافسانے


یس یور ایکسی لینسی اوردوسرے افسانے
عابدہ تقی کے افسانوں کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
مجھے شاعرہ عابدہ تقی کے افسانوں کی پہلی کتاب پر بات کرنی ہے اور احمد فراز کا ایک جملہ یاد آرہا ہے ۔ ایک ایسا جملہ‘ جو شاعر مشکل ہی سے کہہ پاتے ہیں مگر احمد فراز نے کہا اور ہم نے اپنے کانوں سے سنا ۔ میں وہ جملہ آپ تک پہنچاناچاہتا ہوں ‘مگر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پہلے اس ماحول کی بابت بتا دوں جو اس جملے کا باعث ہوا تھا۔ تو صاحبو ماحول یہ تھا کہ کشور ناہید کے ہاں ہندوستان سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں جیلانی بانو‘ خلیق انجم اور انور معظم کے لیے دعوت کی تقریب تھی۔ کھایا پیا جا چکا‘ حتی کہ افتخار عارف اور خلیق انجم بھی جا چکے تو جو باقی بچے ‘اُن میں فکشن نگارزیادہ تھے ۔احمد فراز کو شرارت سوجھی کہا بھئی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر ایسی تقریب میں فرمائش ہوتی ہے ‘غزل سناﺅ‘ کوئی افسانہ سننے کو نہیں کہتا ہے ۔ منشایاد نے بات سنی اور ان سنی کردی ‘ میں اپنی کہنے لگا‘ مسعود مفتی نے بھی مقابلے کا چٹکلہ چھوڑا حتی کہ احمد فراز وہ جملہ کہنے پر مجبور ہوئے جو میں آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔ اوروہ جملہ ایسا تھا جس پرسب نے داد دی تھی : ”شاعری اور تخلیقی نثر میں بس اتنا فرق ہے جتنا دو جینوئن لکھنے والوں میں ہوتا ہے“ یہ بات قطعاً اس سے مختلف ہے جو بہت پہلے شمس الرحمن فاروقی نے”افسانے کی حمایت میں“ کہی تھی۔ وہی شاعری کے مراتب جلیلہ کے مقابلے میں افسانے کو بے چارہ اورکمتر کہہ ڈالنے کی بات۔تاہم اس کا بھی لطف لیجئے کہ ازاں بعد فاروقی فکشن لکھنے کی جانب یوں راغب ہوئے ہیں کہ ان کی اس بات پربے مزا ہونے والوں کو بھی انہیں پڑھ پڑھ کر لطف آنے لگا ہے ۔ میں نے شبنم شکیل کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے لکھا تھا :” صاحب جسے عمر بھر آپ اصناف پر حکمرانی کے لائق گردانتے رہے ‘ اسے سب اصناف سے اعلی واولی قرار دیتے رہے ‘ اس میں حوصلہ تھا‘ نہ تڑ‘ کہ ُان تخلیقی تجربوں کو سہار سکتی جو اس کمزور‘ معمولی اور نہ بدلنے والی صنف نے کمال ہمت سے اور اپنے بھیتر کے دائروں اور بھنوروں کو بدل کر سہار لیے ہیں۔“ شبنم شکیل کے افسانوں کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بتانے کو جی چاہنے لگا ہے کہ فہمیدہ ریاض سے لے کر فاطمہ حسن تک اور شبنم شکیل سے لے کر عابدہ تقی تک یہ جو شاعرات جوق در جوق فکشن کی طرف راغب ہو رہی ہیں تو یہ سب شاعری میں اپنا نام کما کر ادھر کو آئی ہیں۔ عابدہ تقی کو ہی لیجئے ‘ اس کی شاعری کے اب تک تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ وہ جو شمس الرحمن فاروقی نے افسانہ نگاروں پر پھبتی کس کر کہا تھا : ”تاریخ کم بخت تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی شخص صرف و محض افسانہ نگاری کے بانس پر چڑھ کر بڑا ادیب نہیں بن سکا“ تو یوں ہے کہ اس باب میں خودشمس الرحمن فاروقی سے وحید احمد اورعابدہ تقی تک فکشن کی طرف راغب ہونے والوں نے مجھے یہ کہنے کی سہولت بھی بہم کردی ہے کہ لکھنے والا جب لکھ رہا ہوتا ہے تو وہ ’بڑا ادیب ‘بننے کی نیت باندھ کر اور’ شہرت کے بانس‘ پر چڑھنے کو زندگی کا مقصد جان نہیں لکھ رہا ہوتا‘ وہ تو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر صدق دل سے تخلیق کے تجربے کے مقابل ہو رہا ہوتاہے ۔ اب ایسے میں شعر ہو یا افسانہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اوہ ‘ یہ میں کیا کہہ گیا.... فرق پڑتا بھی ہے ‘ ہاں ماننا چاہیے‘ کہ بالکل پڑتا ہے ‘ .... جب لکھنے والا ایک تخلیقی صنف کے قرینوں سے وابستہ رہتے ہوئے دوسری تخلیقی صنف کے دائرے میں گھس جاتا ہے تو ٹھیک ٹھاک فرق پڑتا ہے تاہم میں اسے خام تجربے کا شاخسانہ کہوں گا۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ فکشن کے جملے کا اپنا قرینہ اور اپنا آہنگ ہوتا ہے ۔ شعر کہنے والا جب تک اس سے آگہی نہیں پاتا وہ نثر پارے لکھتا ہے جو افسانے تو کیا‘ نثمیں بھی نہیں بن پاتیں یا پھر نثری متن میں ادھر ادھرشعری کترنوں کی جھالریںلگا لیتا ہے ۔ فکشن کی نثر کو شاعری کے قرینے سے برتنے والے ہمیشہ تخلیق کے التباس میں رہے ہیں ۔ اس رویے نے ہمارے اچھے بھلے افسانہ نگاروں کو بھی بہکایا اور وہ اپنی فکشن کی نثر کو شاعرانہ بنانے کی للک میں بہت رسوا ہوئے۔ عابدہ تقی کے افسانوں کی بستی میں‘ مَیں اِسی زبان کے دروازے داخل ہوا ہوں۔ اب یہ مان لینے میں کیساتردّد کہ جب عابدہ نے اپنے افسانوں کا مسودہ مجھے ارسال کیا تھا تو میں غزل کہنے اور لگ بھگ اسی تخلیقی تجربے کی توسیع بنتی نظم والی عابدہ کو ذہن میں رکھ کر ہزار اندیشوںاور وسوں کو دل میں راہ دے چکا تھا۔ تاہم یہیں مجھے یہ اعتراف بھی کرنا ہے کہ ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے میں بہت جلد بھول گیا کہ یہ ایک شاعرہ کے لکھے ہوئے ہیں۔ غالباً یہ بات بیدی نے کہی تھی کہ’ ایک لکھنے والے کے اندر ایک سے زیادہ تخلیقی وجود ہو سکتے ہیں‘ تو یوں ہے کہ ان افسانوں میں عابدہ کا یہ دوسرا تخلیقی وجود میرے مقابل تھا‘ شاعرہ عابدہ سے مختلف ۔ سادہ رواں ‘ فکشن کا اپنا آہنگ لیے ہوئے ‘ واقعے کی تفصیلات کوسہولت ‘سلاست اور سلیقے سے بیان کرنے والی نثر سے وفادار ی کو شعار کیے ہوئے ....اور پھر اس وفاداری کو شروع سے آخر تک نبھاتے ہوئے ۔ عابد ہ کے ہاں کہانی کا ٹھوس وجود انتہائی محترم ہو گیا ہے ۔ اس کے ہاںواقعات مدہم بہاﺅ میں بہتے ہیں ۔ زمانی ترتیب میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوتی تاہم کہیں کہیں وہ فلیش بیک تیکنیک سے ندرت پیدا کر لیتی ہے۔ بالعموم کہانی لکھنے کے لیے اُسے کسی بہت بڑے سانحے یا شدیدبات کی تلاش نہیں ہوتی کہ اسے زندگی کی کچی پکی گلیوں سے گرے پڑے کرداروں کو اٹھاکر ان کے روز مرہ کے دُکھ سکھ سے کہانی بُننے کا ہنر آتا ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ متن کے اندر سے کہانی کا بڑا پن کیسے برآمد کیا جا سکتا ہے ۔ کہانی میں جزیات عابدہ کے ہاں بہت اہم ہیں ‘ وہ ا ن ہی سے کہانی کا ماحول بناتی ہے اور اس ماحول میں تحرک پیدا کرتی ہے تاہم لطف یہ ہے کہ یہ جزیات نگاری کہیں بھی اس کے اندر تفصیل نگاری کی اشتہا باعث نہیں ہوتی۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ کہانی کا متن واقعے کے کتنے اور کیسے اجزاءکو سمیٹ سکتا ہے ۔ ایک اور بات جو عابدہ کے بیانیے کو بوجھل ہونے سے بچا لیتی ہے وہ اس کی شگفتگی ہے بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ جہاں اسے بیانیہ اجازت دیتا ہے وہ مضحک صورت حال کو اس میں سمو لیتی ہے ۔ یہ لگ بھگ وہی طرز عمل ہے جو بیدی کے ہاں‘فاروقی نے تلاش کیا اور اسے پسند بھی کیا تھا ۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ بہت محتاط رہتی ہے اور ایسے لطیف یا طنزیہ جملوں سے کہانی کے عمومی بہاﺅ میں نہ تو رخنہ پڑنے دیتی ہے اور نہ ہی قاری کو اس کی مجموعی فضا سے باہر نکلنے دیتی ہے ۔ عابدہ نے انسانی حیات کے نامعلوم یادُھند میں ڈوبے ہوئے جزیروں سے بہت زیادہ اِعتنا نہیں رکھا کہ اس کی کہانی کے لیے سماجی زندگی کے معلوم علاقوں اور اس کی مسلمہ اقدار سے وابستگی اور پیوستگی ہی بہت اہم ہو جاتی ہے ۔ اس کی ساری کہانیاں انہی علاقوں کا احوال کہتی ہیں ۔ اِن کہانیوں میں وہ قاری کو بیچ منجدھار میں نہیں چھوڑ تی‘ ایک ترسیل ہوجانے والے انجام تک لے کر چلتی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ قاری خود کو بند گلی میں نہ پاکر ہر بار زندگی کرنے کے حوصلے سے اپنادل کناروں تک بھرلیتا ہے ۔ تاہم تقدیر سے لڑنے کے معاملے میں اس کے ہاں بے بسی کا رویہ نمایاں ہے ۔ وہ بتانا چاہتی ہے کہ معاشرے کے پسے اور روندے ہوئے لوگ زندگی کی مصروف شاہراہ پر اپنے معصوم قدموں سے بھاگ تو سکتے ہیں مگر مقدر کے ٹینکر تلے کچلے جانے سے بچ نکلنا ان کے بس میں نہیں ہے‘ تقدیر ان کی ٹانگیں کاٹ سکتی ہے اور کاٹ دیتی ہے۔ صاحب ‘ آدمی ہمت کرے تو زمانے بھر سے بِھڑ سکتا ہے مگر تقدیر سے کیوں کر لڑے گا ‘ جولڑے گا توکیا اپنا بدن ریزہ ریزہ نہ کروابیٹھے گا؟ اور ہاں ‘ یہ بات ایک تخلیق کار لڑکی کے ہاں بہت اہم ہو جاتی ہے کہ محبت اس کے تخلیقی تجربے میں ککر متے کی طرح اُگ آنے والا جذبہ نہیں رہتی انتہائی محترم اور پاکیزہ جذبہ ہو جاتی ہے انسانی وجود کے اندر اترا ہوا اور تہذیب یافتہ ۔ اس جذبے کی طنابیں کسی ہوئی ہیں اور عابدہ کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ اس جذبے کو سیکھا جا سکتا ہے۔ اعلی آدرشوں کا سحر بھی اس کے ہاں ابھی تک قائم ہے۔ تہذیبی زندگی پر اس کا ایمان پختہ ہے ۔ مثبت ‘ معاشرتی اقدار‘ خاندان کی کلیت اور رشتوں کا احترام عابدہ کے ہاں ایمان کی سطح پر ملتے ہیں ۔ اس کی کہانیوں سے سے ان جذبوں کی خوشبو اتنی خالص ہے کہپڑھنے والوں کے خون کا حصہ ہو جاتی ہے ۔ مرد کرداروں کے مقابلے میںعابدہ کی کہانیوں کی عورتیں زیادہ متحرک اور فعال ہیں ‘ تاہم لطف یہ ہے کہ یہ عورتیں اپنے ہاں کی ٹھہری ہوئی تہذیب کی پروردہ ہیں ۔ یہ میں اس کے باوجود کہہ رہا ہوں کہ اس کی کہانیوں میںبلیو جینز‘ وائٹ ٹاپ اورزندگی کو آزادہ روی سے لینے والی عورت کا روپ ملتا ہے اور بلیک پینٹ‘آف وہائٹ سلیولیس شرٹ والی بہت آگے بڑھ جانے اور زندگی کوہار دینے والی عورت کابھی۔ کہیں اس کی عورت جم غفیر میں ٹی وی والوں کے لیے انٹرویو لے رہی ہوتی ہے اور کہیں اعلی تعلیم کے خواب دیکھتے دیکھتے اس کے آنکھیں حقیقت کی چوندھ کے مقابل ہوجاتی ہیں ۔ یہ بھی ہوا ہے کہ اس کی عورت کو”یس یور ایکسی لینسی“ کہہ کر سفیر کے ہاتھوں گلاب کے پھول وصول کرنے اور نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانا پڑا ہے ۔یوں کہہ لیں صاحب کہ گھر سے نکلی ہوئی اور مرد کے ساتھ معاشی جدوجہد میں مصروف عورت عابدہ کی کہانیوں میں زیادہ اعتنا پاتی رہی ہے۔ مگرآپ عابدہ کی سب کہانیاں پڑھ جائیں وہ کہیں سے بھی گھر اور خاندان کی باغی نہیں لگتی‘ یہی سبب ہے کہ میں نے اسے اپنی تہذیب کی پروردہ عورت کہا ہے ۔ سچ پوچھئے تو یہی ہمارے ہاں کے مستقبل کی عورت ہے۔ وہ بات جو میں نے آغاز میں لکھ دی تھی ‘ احمد فراز والی ‘ ....تو آخر میں یہ بتانا ہے کہ وہ میں نے یوں ہی نہیں لکھ دی تھی ‘اس کا ایک سبب بھی تھا .... یہی کہ فکشن اور شاعری کے تخلیقی تجربے عابدہ کے ہاں بالکل جداگانہ آہنگ لے کر آئے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے سے مرعوب نہیں ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو زچ کرنے میں جتے ہوئے بھی نہیں ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کو مانتے ہیں ایک خود مکتفی تخلیقی وجود کی صورت میں ....اور یہی وہ وصف ہے جس نے مجھے یقین دلا دیا ہے کہ عابدہ فکشن میں دور تک چلنے کی سکت رکھتی ہے ۔ عابدہ نے غزلیںکہیں‘نظمیں لکھیں ‘ مطالعے کی طرف بھی خوب راغب ہے‘ لہذا بات کرے توتول تول کر کرتی ہے اور بھلی لگتی ہے ۔ اب ان کہانیاں کو پڑھ کر مجھے یقین ہو چلا ہے کہ وہ اس میدان میں بھی بہت آگے تک جائے گی اور یہ بھی کہانیاں اپنا حلقہ اثر بنا لینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
٭٭٭

ظہیربدر کا ناول

ادھوری محبتیں اور چندادھوری باتیں
ظہیربدرکےناول کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
کچھ دن ہوتے ہیں مجھے اسرائیلی ادیب اے بی یہوشوا اور لبنانی ادیب الیاس خوری کا ایک ساتھ لیا گیا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ انٹرویو ڈیبی ایلیٹ نے لیا تھا اور اس کا متن ”دنیازاد“ نے این پی آر کی ویب سائٹ سے لے کر اردو پڑھنے والوں کو فراہم کر دیا تھا۔ الیاس خوری نے اسی نٹرویو میں ایک دلچسپ بات کہی تھی ۔ ابوظبی میں مقیم ظہیر بدر کے زیر نظر ناول پر کچھ کہنے سے پیشتر جی چاہتا ہے وہ آپ بھی پڑھ لیں ۔ الیاس خوری کی جس بات کا میں ذکرکرنے جا رہا ہوں وہ اے بی یہوشوا کی اس اطلاع کے ساتھ جڑی ہوئی تھی کہ بقول اس کے وہ اپنے نئے ناول کا اختتامی حصہ لکھ رہا تھا اور یہ کہ اس کے ناول کے کردار اس سے بضد تھے کہ تم انہیں اکیلے چھوڑ کر جنگ کی طرف نہیں جا سکتے۔ الیاس خوری کے مطابق اس نے بھی اپنا نیا ناول کو مکمل کر لیا تھا۔ تاہم وہ اپنے ناول کو لکھتے ہوئے اس کے کرداروں کی طرف اس طرح نہیں جاسکتا تھا جس طرح یہوشوا چلا گیا تھا۔ وہ اپنے مرکزی کرداروں کواپنے ساتھ جنگ کے میدان میں لے گیا تھا کہ وہ خود جنگ کی مصیبت اور تباہی کو دیکھ سکیں۔ ظہیر بدر کے ساتھ بھی لگ بھگ الیاس خوری والاحادثہ ہوا ہے ۔ اس نے ان ادھوری محبتوں کی کہانی لکھنے کا قصد باندھا تھا جنہیں وہ اپنے تئیں زندگی کا تلذذ سمجھتا رہا مگر اسے اپنی کہانی کے کرداروں کو قومی انتشار کے میدان کارزار میں لے جانا پڑا۔ ظہیر بدر کی اس کہانی میں ہر واقعہ بولتا ہوا آتا ہے بالکل یوں جیسے بندوق سے چلائی گئی گولی بولتی ہے یا پھر جیسے خبر بولتی ہے.... اپنے سارے حوالوں کے ساتھ.... فکشن کو یوں لکھنا کہ فیکٹس لکھنے والے کے اعصاب پر حاوی رہیں اور ان کے بیچ سے کہانی کے کرداروں کو اپنی شباہت اور قد کاٹھ کے ساتھ آگے بڑھائے چلے جانا بہت حوصلے کی بات ہوتی ہے ۔ یہ حوصلہ ظہیر بدر کے پاس ہے لہذ ا اس کی کہانی میں پنجاب یونیورسٹی سے لے کر قومی سطح تک کی سیاست اور ہنگامے بہ سہولت سماگئے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ ناول کا ماحول تعمیر کرنے کے لیے جن سیاسی ‘ ثقافتی ‘سماجی اور قومی شخصیات کو حوالے کے طور پر چنا گیا ہے ان کے نام ہماری تاریخ کے ماضی قریب کے باب کا حصہ ہیں ۔ مجھے اس مقام پر یہ تسلیم کرنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ اس روش کو اپنانے میں ایک خدشہ تو یہ ہے فکشن پرتاریخ کا گمان ہونے لگتا ہے یا پھر کہانی کو خبر بننا پڑتاہے ۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ یوں متن کی سطح پر تو واقعات کی خوب چہل پہل ہوتی ہے مگر جملوں میں دبازت آتی ہے نہ کوئی ایسا باطنی نظام بن پاتا ہے جو معنی کی ایک اور سطح کو اجالتا چلا جائے ۔ ظہیر بدرتخلیقی عمل کے اس بھید کوجانتا ہے لہذا اس نے قومی ‘ ثقافتی اور ادبی زندگی کے ساتھ ساتھ ادھوری محبتوں سے خوب خوب کام لے کر اپنے پڑھنے والوں کے دلوں کو گداز بنا لیا ہے ۔ صاحب ‘یہیںایک قصہ یاد آتا ہے۔ یہ قصہ میں نے مایا کافسکی کے حوالے سے کہیں پڑھا تھا ۔ کہتے ہیں وہ ماسکو کے ایک ایسے ہال میں اپنی شاعری سنا رہا تھا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مایاکا فسکی نے میلے کچیلے اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن رکھے تھے لہذا اپنا کلام سناتے ہوئے اسے اپنی نیچے کو کھسک جانے والی پتلون بار بار اوپرکھینچنا پڑتی۔ سارا مجمع مایاکا فسکی کے کلام میں محو تھا مگر ایک لڑکی کواس کے بار بار پتلون اوپر کھینچنے پر الجھن ہو رہی تھی۔ اس کا دھیان کلام پر نہ رہا لہذا مایا کافسکی کو پکار کر کہا ‘تم اپنی پتلون بار بار اوپر کیوں کھینچتے ہو؟ مایا کافسکی نے اپنا کلام سناتے سناتے اسے جواب دیا ” تو کیا تم چاہتی ہو کہ یہ نیچے گر پڑے؟“ تو یوں ہے کہ وہ کردار جو اصلی ہیں ‘ وہ اگر قارئین کے ایسے گروہ کو جس کا مزاج اسی لڑکی جیسا ہے ‘ الجھانے لگیں تو اس طبقے کو جان لینا چاہیے کہ ان کرداروں کا وجود ہماری قومی زندگی کا ایسا میلا لبادہ ہے ‘ جسے سہولت سے گرایا جا سکتا ہے نہ ڈھنگ سے قومی کمر پر جمایا جا سکتا ہے ۔ ظہیر بدر نے مایاکافسکی کی طرح قومی زندگی کے میلے لبادے کو دھو کر اور اسے اپنی مرضی کا نیل اور کلف دے کرپہننے کی بجائے اسی طرح لیا ہے جیسا کہ وہ تھا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نے فنکارانہ احتیاط سے اپنے موضوع کی تمام باریکیوں کو اجالنے کا ہتمام بھی کیا ہے ۔ جی ‘ ظہیر کے جس قرینے کی میں بات کر رہا ہوں اس کا اندازہ وہاں وہاں بخوبی لگایا جاسکتا ہے ‘جہاں اس نے اپنے کرداروں کو اپنی مرضی اور سہولت سے تراشا ہے ۔ کہانی کا آغاز نوازش اور نیلسن کے بھر پور کرداروں سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں کردار آخر تک چلتے ہیں اور قاری کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اپنے اپنے مقام پر کئی دوسرے کردار اس بخت کے ساتھ آئے چلے جاتے ہیں جو ناول نگار نے ان کے لیے اپنے قلم سے لکھ دیا ہے ۔ میڈم اولگا ‘وہ کہ جس نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی۔ نوازش کی بے نیازی سے گھائل ہونے والی بیورو کریٹ کی شوخ و شنگ لڑکی شاہدہ۔ یہ تو بعد میں کھلتا ہے کہ وہ کسی بیوروکریٹ کی بیٹی نہیں ‘ایک لو میرج کے بعد دو جسموں کے اتصال کا نتیجہ تھی ۔ شدید محبت کرنے والے مگر بعد میں ایک دوسرے سے تنگ آکر خود کشی کرنے والے۔ یونیورسٹی سے رسوا ہو کر نکل جانے والی بازار حسن کی نازاں‘ جسے بعدازاں نوازش نے پڑھایا اور جس کی رانوں نے اسے اور طرح کی لذت پڑھائی ۔ وہ رابعہ جو نوازش کی زندگی میںداخل ہو کر بھی الگ رہی تھی یا پھر نصر اور سمیعہ کی وہ جوڑی جس کے اندر نیلسن سماگئی تھی ۔ یہ الگ بات کہ بعدازاں سمیعہ کے مقدر میں مصنف نے موت لکھ کر کسی حد تک ادھوری رہ جانے والی محبتوں کے چلن کو بدلنا چاہا تھا۔ نائل اور سوشیل کے کردار ہوں یا غلام حسن کا وہ کردار جسے شراب نہ مار سکی مگر جسے نصیحتوں نے مار دیا تھا۔ پھر کہانی کے اندر ستاروں کی طرح یہاں وہاں جگ مگ جگ مگ کرنے والے چھوٹے چھوٹے کردار ۔ تو یوں ہے کہ انہی کرداروں سے کہانی توانائی پاتی ہے اور کامیابی سے آگے بڑھتی ہے۔ یہاں نیلسن کے کردار کاالگ سے ذکر کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ایسے زندہ کردار سہولت سے نہیں تراشے جا سکتے ۔ جی میں اسی نیلسن کی بات کر رہا ہوں جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس سے نوازش کو محبت ہو گئی تھی ۔ سانولی سلونی سی قاتلہ مگر جس کی محبت کو نوازش نے قتل کر دینا چاہا تھا۔ جب اس ناول کا ہیرو نیلسن سے اسلام قبول کر لینے کا مطالبہ کر رہا تھا تو منٹو کے افسانے ”دوقومیں“ کے دوکردار مختار اور شاردا میرے ذہن میں پوری طرح روشن ہو گئے تھے۔ منٹو کامختار بھی ظہیر کے نوازش کی طرح اپنے گھروالوں کو راضی کرنے کے بعد اپنی محبوبہ کو اسلام قبول کرنے کا مشورہ ینے پہنچ گیا تھا۔ ظہیر کی نیلسن منٹو کی شاردا سے مذہب کے باب میں کہیں باوقار نکلی ۔ منٹو کی کہانی میں جب مختار نے شاردا سے مسلمان ہونے کا کہا تو اس نے ترت حساب چکا دیا تھا ”تم ہندو ہو جاﺅ نا“ اور اسی بات پر دونوں کو اپنی اپنی محبت کے ساتھ الگ ہو جانا پڑا تھا۔ ظہیر کی کہانی یہیں سے مختلف ہو جاتی ہے۔ نیلسن کی محبت شاردا کے مقابلے میں بہت اعلی درجے کی ہے۔ اعلی ‘پختہ اور زیادہ بالغ نظر۔ تب ہی تو مذہب کا الجھیڑا نیلسن کے لیے تعجب ضرور بنا مگر اسے جھٹک دینااس کے لیے مشکل نہ رہا تھا۔ وہ اس کے لیے مذہب تبدیل کرنے پر راضی ہو گئی تھی۔ ظہیر نے کہانی کے بہاﺅ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر یہ کچھ نوازش کو کرنا پڑتا تواس کا رویہ منٹو کے مختار جیسا ہی ہوتا۔ تو یوں ہے کہ منٹو کی کہانی جس نقطے پر ختم ہو ئی تھی اور شاید اسی جذباتی خاتمے کی وجہ سے ایک کامیاب کہانی کا تاثر نہ چھوڑ سکی تھی وہیں سے ظہیر کی کہانی دامن بچا کر آگے بڑھ گئی ۔ ظہیر بدر اس معاملے میں بہت کائیاں نکلا فوری فیصلے کی بجائے اس نے نوازش کو اس باب میں سوچنے کا وقت دیا یہاں تک کے اس کے دل میں کئی خدشوں نے سر اٹھا لیا ۔ اس نے ایک لڑکی کو مسلمان کیا تھامگر یہ تفاخر اس کے اندر اطمینان نہ پیدا کرسکاتھا۔ وہ اند ر سے ملول تھا۔نیلسن نے اس کی بات مان لی تھی مگر جاتے جاتے اس کی چپ کے اندر سرسراتی سرد آہ نوازش کو تڑپا گئی۔ کئی روز تک رات کی تنہائیوں میں نیلسن کا چپ چہرہ اسے اس کے کئے پر اور اپنے کہے پر خون کے آنسو رُلاتا رہا۔ نیلسن کے اس غیر متوقع اور غیر معمولی ردعمل نے اس کی روح کو کئی ماہ تک اضطراب اور احساس ِ گناہ میں مبتلا رکھاتھا۔ کہانی کا جبر دیکھیے کہ نوازش ابھی تک یہ سمجھ ہی نہ سکا تھا کہ نیلسن اسے جسمانی سطح پر چاہتی تھی یا روحانی سطح پر لہذا اسے یہ وسوسے ستائے جاتے تھے کہ جو لڑکی ایک جسمانی تلذذ کے لئے اپنے روحانی رشتوں کو ترک کر رہی تھی وہ کل کو کسی اور کے لئے اسے بھی ترک کر سکتی تھی۔ ماننا پڑے گا کہ ظہیر نے اس باب میں منٹو کی شاردا سے کہیں اعلی کردار تراشا ہے اور کیا خوب محبت سے ترا شاہے ۔ نیلسن کی محبت اور قربانی دونوں کی قدر نہ ہوئی مگر جب وقت آیا تو اس نے کلمہ پڑھ کر اپنا گردہ نوازش کو دان کر دیا کہ اس کے گردے کو اب ایک مسلمان کے جسم کا حصہ ہونا تھا۔ لطف یہ ہے کہ اس کے بعد وہ کوئی احساس جتلائے بغیر ‘ اور اپنی قربانی کی کوئی تختی لگائے بغیر اس کی زندگی سے الگ رہتی ہے۔ اس میں اپنے جذبوں کو تھامے رکھنے کا کتنا حوصلہ تھا اس کا اندازہ لگانا ہو تو کہانی کے آخری حصے میں پہنچئے وہاں جہاں نوازش اپنی زندگی کو ایک پورے انسان کی زندگی ہوتے ہوئے بھی ادھوری قرار دے رہا ہے اور اعتراف کررہا ہے وہ نیلسن کے حالہ ¿ خیال سے نکل نہیں پایاجب کہ نیلسن کمال ضبط سے اپنے راستے کو الگ رکھتی ہے ۔ اس کے اس طرز عمل نے میرے دل میں نیلسن کی توقیر بڑھا دی ہے۔ آخر میں مجھے کہنے دیجئے کہ یہ ادھوری محبتوں کی کہانی ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی زندگی کے زوال کانوحہ بھی ہے ۔ ایسے اسلوب میں لکھا گیا نوحہ ‘جس میں متعین مطالب کہیں بھی سطروں سے بے وفائی نہیں کرتے۔ کردار اپنی اپنی الگ سے شباہت بناتے اور پوری قامت پاتے ہیں ۔ واقعات میں بہاﺅ ہے‘ یہ بولتے ہوئے ہیں اوران میں کہیں اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوتی ۔ زمانی ترتیب آخر تک اپنی متعین دھج پررہتی ہے ۔ ہماری زندگیوں میں اندر تک دخیل ہونے والی محبت اور سیاست کواس ناول میں بڑی ہوشیاری سے برتا گیاہے ۔ اسی تجزیاتی برتے پر مجھے اپنے اس یقین کا اظہار بھی کر لینے دیجئے کہ صاحب ‘ ظہیربدر کے اس ناول کو بہت قاری میسر آئیں گے۔
٭٭٭

وقار بن الہی کے افسانے

چاہ درویش اورپنکھڑی کا گداز
وقاربن الہی کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
انتظار حسین نے حال ہی میںگزشتہ صدی کے اہم جاپانی افسانہ اور ناول نگار یونی چیرو تانی زاکی کی جو کہانی ”مکڑی کا جال“ کے عنوان سے ترجمہ کی ہے‘اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ گزر چکی صدی کے آغاز میں لکھی گئی تھی .... لگ بھگ اسی عرصے میں جب اردو افسانہ پنچوں کے بل چل رہا تھا۔ یہ جاپانی کہانی ایک نوجوان گودیے کے گرد گھومتی ہے....یکتائے روزگار گودیا منی کیچی‘جو یوں بدن گودتا تھا کہ سارے نقوش‘گداز اور ندرت کے طلسم سے جاگ اُٹھے تھے۔ ایک صدی کی معقول عمر پا لینے والی ہماری کہانی کا بدن بھی کچھ ایسے ہی گداز اور ندرت کا متمنی رہا ہے‘بخت کی یاوری دیکھئے کہ یہ سب کچھ اس کا مقدر بنا بھی‘تبھی تو اس میں زندگی کی گونج باقی اصناف کے مقابلے میں ذرا زیادہ توانا ہے اور قدرے صاف سنائی دیتی ہے۔اس کے باوصف یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ وقت کے کچھ مخصوص اور محدود ٹکڑوں میں کہانی کے بدن پر نقش ہی نقش گونجنے لگے‘لذت منہا ہو گئی یا پھر لذت ہی لذت رہ گئی....زبان کی لذت ‘ بیان کی لذت یا باطنی آشوب کی لذت.... رہے کہانی کے باقی نقوش‘تو وہ اد بدا کر گڈ مڈ ہو گئے۔ وقار بن الہٰی کے وہ اکاون افسانے جو تین مختلف مجموعوں ”اترنا دریا میں“(۲۹۹۱ئ)‘ ”کس سے کہے وہ“(۲۹۹۱ئ)اور ”چاہ در پیش“(۰۰۰۲ئ) میں جگہ پا کرمنظرِ عام پر آ چکے ہیں۔زماں کی اسی ہنگامہ خیز تھگلی میں تخلیق ہوئے ہیں۔زیادہ تر افسانوں کا زمانہ ماضی قریب کا وہ عرصہ ہے جس کے بارے میں اپنی جانب سے کچھ کہوں گا تو لائق گرفت ٹھہروں گا‘ لہٰذا ”نیا پاکستانی افسانہ‘نئے دستخط“ کے نام سے ۳۸۹۱ ءمیں دہلی سے چھپنے والے انتخابات کے پیش لفظ سے چند جملے پڑھ لیجئے۔”جب برستانی خس و خاشاک دم توڑتی ہوئی لہروں کے ساتھ اپنے اپنے کناروں تک جاتے ہیں اور صاف نتھرے ہوئے پانی میں کنول اور کریمو اگنے لگتے ہیں‘کوئی شک نہیں کہ اس دور میںگاڑا پاٹ پودے بھی پیدا ہوتے ہیں‘جو آہستہ آہستہ زمین کو بلند کرتے جاتے ہیں اور پانی کم سے کم ہو جاتا ہے لیکن یہ عمل سالہا سال کے عمل دخل کے بعد ہوتا ہے۔فی الوقت اردو افسانے کی صورتِ حال یہی ہے کہ شور شرابہ تقریباً ختم ہو چکا ہے‘ یعنی اب راتوں رات شہرت کا امکاں نہیں کے برابر ہے۔“ طرفہ تماشا دیکھئے کہ جب شہرت بٹ رہی تھی تو وقار بن الہٰی نے ادھر دھیان نہ دیااور جب مشہور ہونے کا زمانہ لد چکا تو وہ یکے بعد دیگرے تین کتابیں اور ایسی کتابیں دے چکا ہے جن میں نہ تو جنسی کشا کش ہے‘نہ کہانیوں سے بر گشتہ باطنی الجھاووں کا مجرد نوحہ۔۔۔۔اور حیرت یہ ہے کہ کہانی کے وجود پر تین حرف بھیجے گئے ہیں نہ گزر چکے وقت پر ملامت کی گئی ہے۔۔۔عام‘بے ضرر سی کہانیاں جو کہیں بھی مشتعل نہیں کرتیں اور عین ایسے زمانے میں لے آنا کہ راتوں رات شہرت ہتھیانے کا زمانہ بھی بیت چکا ہو‘مجھے یہ باور کرانے کے لئے کیا کافی نہیں ہے کہ وقار بن الہٰی ہو نہ ہو‘اپنے ہم عصروں سے پچھڑا ہوا افسانہ نگار ہے۔ جن دنوں‘یونی چیرو تانی زاکی کی کہانی کا گودیا سولہ سترہ برس کی حسین لڑکی کے خوب صورت پاو ¿ں دیکھ کر اسے بتا رہا تھا کہ یہ پاو ¿ں اس نے پہلے بھی دیکھ رکھے تھے‘عین اسی عرصے میں ہمارے ہاں کا کہانی کار داستاں‘قصے‘کہانی اور تمثیل کے پائنچوں سے جھانکتے کہانی کے وہ ننگے قدم دیکھ رہا تھا جو ادھر امریکہ‘فرانس‘روس ‘برطانیہ اور جرمنی میں گداز قالینوں پر چلتی رہی تھی۔یہ جو کہانی کے پاو ¿ں دیکھنے کا عمل ہے‘پا پرستی‘عضو پرستی اور اشیا پرستی یعنی Fetishism کی حد تک پاو ¿ں دیکھنے کا عمل....یہ تین دہائیوں سے بھی کچھ زیادہ ہی عرصے پر محیط رہا۔حتی کہ بھاری پائنچوں سے جھانکتے قدم کچھ اور باہر نکل کرپٹخنے لگے‘چنگاریاں اُڑیں‘انگارے دہکے‘لذت کا چٹخارہ نعرہ بن گیا۔۔۔ایسا نعرہ جو آج کل کی Feminism کا پھریرا اُڑاتی عورت اپنے ہی حسن سے باغی ہو کر لگاتی ہے۔ جب اندر کچھ نہ رہا اور سب کچھ بقول ممتاز مفتی ”حلوائی کی دکان کی طرح باہر تھالوں میں سج گیا“ تو وہ نسل اُٹھی جس نے اپنے تئیں باہر کی تندی کوخالی ہو کر سبک ہو چکے اپنے اندر کی سمت موڑ دیا۔علامت‘استعارہ‘تجرید‘نئی حقیقت نگاری‘تشکیک‘باطن‘ہیجان اور ارتکاز جیسے الفاظ لغت سے نکل کر قلم اور زبان کی انیوں پر ناچنے لگے....یوں کہ بوئیے میں بند کہانی کی کمر‘سینہ‘پنڈلیاں ماپنے کا کوئی رائج پیمانہ مستند نہ رہا۔کہاں آغاز ہے‘کہاں وسط اور کہاں انجام‘کس کو ہوش تھا کہ تلاش کر کے فیتے لگاتا‘سبھی اس میں بہہ گئے تھے۔ وقار بن الہٰی بچ گیا.... کیسے بچ گیا؟تعجب ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ اس کسان کی طرح ہے جو آسمان سے مکمل وابستگی کو جزو ایمان بلکہ عین ایمان جان کر بادلوں کی چال دیکھتا ہے‘زمین پر ہل چلا کر پہاڑوں کی اور دیکھتا ہے‘دعا کی صورت آسمان کی سمت اُٹھی اوک میں امید اور بیج ایک ساتھ رکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ جو اس کا فرض تھا‘اس نے پورا کیا۔ طویل انتظار کے زائچے کھینچنے والا‘یا پھر کہہ لیں کہ تبدیلی سے بِدکا ہوایہ شخص ‘یوں لگتا ہے جیسے وقت کے دھارے سے باہر پڑا ہے۔اس کہانی اڑتلا لئے ہوئے جو اسے ۵۵۹۱ ¿ میں پہلی بار ملی تھی۔اپنے آغاز‘وسط اور انجام سے مربوط رنگ اور آواز میں نمی قبول کر چکی پڑا قے کی گوٹ جیسی‘ذات والی بھی قائم بالذات بھی‘ قدرے ہٹ دھرم اور کج مریز۔ یہ جو میں نے وقار بن الہٰی کی کہانیوں کو رنگ میں پڑاقے کی گوٹ جیسی کہہ دیا ہے تو معاف کیجئے گا کہ آپ کو اس میں سارے رنگ نہیں ملیں گے‘جنس کا رنگ تو ایسا ہے کہ اسے تو آپ منہا ہی سمجھیں۔کہیں یہ ”ملعون “جو اپنے سینے کے زور سے کہانی میں در بھی آئی ہے تو اس گھُس بیٹھی کا ذکر یوں ہوتا ہے جیسے بادلِ ناخواستہ ہو رہا ہو۔اپنی گفتگو کو ”چاہ درپیش“ تک محدود کرتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے سات افسانے آب زم زم سے دُھلے ہوئے ہیں۔آٹھویں افسانے ”کڑی سزا“ میں جب ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نمودار ہوئی تھی تو وقار بن الہٰی کے پھسلنے کی امید بندھی تھی....مگر دیکھئے تو وہ کیسے صاف صاف بچ نکلا۔لڑکی کو جھٹکے سے اُٹھایا‘کاو ¿نٹر پر ہتھیلیاں ٹکانے دیں‘قدرے اور جھکا دیا‘آنکھوں میں آنکھیں بھی ڈال دیں۔وہ جس قدر مسکرا سکتی تھی‘مسکرائی حتیٰ کہ ”یس پلیز“کے الفاظ سنتے ہوئے افسانہ نگار کی نظریں گریبان تک پہنچ گئیں مگر اگلے ہی جملے میں اطلاع عام کا اشتہار کہہ رہا تھا کہ گریبان تو اندر سے خود افسانہ نگار کو جھانک رہا تھا جبکہ افسانہ نگار بیچارہ تو اس شئے لذیذ کو یوں پرے دھکیل رہا تھا جیسے شوگر کا مریض چائے کی پیالی اُٹھاتے ہوئے چینی دان کو پوروں سے پرے دھکیل کر تسکیں پا لیتا ہے۔ مگر لطف تو یہ ہے کہ یوں دھکیل دی جانے والی مردود جنس افسانہ ”بھوک“ میں عجب طمطراق سے آتی ہے۔پرتھ کے ہوائی اڈے پر ایک کانفرنس کے مندوب کی حیثیت سے اترنے والے پانچ دوستوں کی شوخیوں کے بیچ جنم لینے والی اس کہانی میں جہاں انفرادی کرداروں کا خوب صورت مطالعہ ملتا ہے ‘وہیں راندہ درگاہ ہو چکی کٹھل جنس کا ایک دلچسپ پہلو عجب ذائقہ دے جاتا ہے۔جوشی‘پرکاش‘حسام الدین‘ترپاٹھی اور خود اپنے کرداروں کے جس قدر اور جیسے خدوخال افسانہ نگار نے اُبھارے ہیں‘سب افسانے میں یوں سج گئے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔۔۔۔حتیٰ کہ راہ چلتی ان عورتوں کا سراپا بھی لذیذ ہو گیا ہے جنہیں افسانہ نگار یوں دیکھتا ہے جیسے نظروں سے پرے دھکیل رہا ہو۔۔۔بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے دیہاتوں کے وہ مہذب بزرگ جو بچوں کو پیار بھی دھپا لگانے کے بعد کرتے ہیں۔اس کہانی میں ترپاٹھی کے اندر سے اُس ٹھاٹھیں مارتی جنس کو سراغ لگا کر برآمد کیا گیا ہے جو جسم دیکھنے کی متمنی ہوتی ہے‘اس کی خوشبو سونگھنا چاہتی ہے‘اس کے تذکرے سے نطق کو معطر کرتی ہے مگر اتنی سکت نہیں رکھتی کہ اسے برت سکے۔ ”نام لیوا“ اور وہ افسانہ‘ جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں یعنی ”کڑی سزا“.... ”بھوک“ کی طرح سفر نامے کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔”نام لیوا“ کی کہانی اس حقیقت سے پردہ اُٹھاتی ہے کہ ایمان کی مہک ریاستی جبر اور تہذیبی اُکھاڑ پچھاڑ کے با وصف اندر ہی اندر‘شریانوں میں‘ سانسوں میں اور روح میں نسل در نسل سفر کرتی ہے۔تاشقند کے حسین اور قبیح مناظر دکھاتی کہانی کا رُخ جب شہر سے مضافات کے طرف مڑتا ہے تو جھریوں بھرے چہرے‘جلی ہوئی رنگت اور چیتھڑوں میں ملبوس قزاق کسان سامنے کی میز پھلانگ کر دوسری جانب آتا ہے اور ”السلام علیکم“ کہہ کر سرخ موٹے انار انہیں محض اس لئے پیش کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں‘اس مذہب سے متعلق جو نسلوں سے ان کے اندر سے‘بے دردی کے ساتھ‘تقریباً کھرچ ہی دیا گیا تھا‘تو میرا دِل جذبوں کی حِدت سے لبا لب ہو جاتا ہے۔ افسانہ ”کڑی سزا“ میں بھی جذبوں کی یہی بہتات ہے۔کہانی میں ایک باپ ہے جعفری ‘جو واشنگٹن میں بس کر مسٹر جیفرے ہو گیا ہے۔اس نے واشنگٹن میں ایک کامیاب شخص کی طرح سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔ذاتی مکان‘گاڑی‘دولت‘بیوی اور بچیاں۔مگر حادثہ یہ ہواہے کہ بچیاں جوان ہو گئی ہیں۔مغرب کی عورت کو مغربی بن جانے والے مرد کے گھر سے مشرق کی بو آنے لگتی ہے لہذا وہ گھر چھوڑ گئی ہے۔لڑکیاں چِکنی جلد والی مچھلیوں کی طرح باپ کے ہاتھوں سے پھسلے جا رہی ہیں اور انہیں مغربی تہذیب کا مگر مچھ قسط در قسط نگل رہا ہے۔یہی وہ کڑی سزا ہے جو اپنی تہذیب‘اپنی زمین‘اپنی ماں ‘اپنے لوگوں اپنے روحانی اور فکری اثاثے پر دولت ‘مادی آسائشوں اور بے جہت روشن خیالی کو ترجیح دینے والوں کا مقدر ہو جاتی ہے۔ افسانہ ”پہچان“ میں افسانہ نگار کا اکل کھرا اپنا آپ پوری طرح سما گیا ہے۔اسلام آباد جیسے مصنوعی شہروں کے مکین ایک مرحلے پر اندر سے اکیلے ہو جاتے ہیں۔افسانہ ”مہلت“ کا آخری جملہ اسی اکیلے رہ جانے والے کے کرب کی تفہیم رکھنے والے کے قلم سے نکلا ہے۔تھوڑی سی مہلت بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے ....تھوڑی سی مہلت ان کو پھولتا پھلتا دیکھنے کے لئے۔۔۔اور آخر میں تھوڑی سی مہلت کہ وہ اکیلی نہ رہ جائے جو ساتھ والی چارپائی پر بولتے بولتے تھک کر سو گئی ہے اور اب خراٹے لئے جاتی ہے....ایک معصوم مگر شدید خواہش کہ کہیں وہ اکیلی نہ رہ جائے۔ ”ڈیڑھ صدی انگاروں “میں بھی یہی اکیلے رہ جانے والے ماں باپ ہیں اور جذبوں کا وہ سمندر جو ان کے سینوں میں موجزن ہے۔ماں دلگیر ہے۔ماں سے زیادہ باپ کا دِل دکھی ہے مگر اسے اپنی بیوی کو دلاسا دینا ہے لہٰذا دل پر جبر کرتا ہے،یوں کہ ضبط کرنے والے کے اپنے آنسو نکل جاتے ہیں۔افسانہ ”بڑی ماں“بھی سچے اور کھرے جذبوں سے بنایا گیا ہے۔کہانی میں ایک ماں ہے جو بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہی ہے۔ایک باپ ہے جو جذبوں کے آگے روک باندھتا ہے حتیٰ کہ وہ مرحلہ آ جاتا ہے جب ایک ماں ایک بیوی سے شکست کھا جاتی ہے۔ماں باپ اور اولاد کے بیچ محبت کی تکون بناتی ساری کہانیوں میں افسانہ نگار خود نہ صرف پیار سے دھپا مار کر منہ چومنے والے بزرگ کی طرح جلوہ دکھاتا رہتا ہے‘ہمیں وہ تہذیب اور جذبے بھی دکھاتا ہے جو رفتہ رفتہ متروک ہو رہے ہیں یا جنہیں ہم نادانی میں متروک کر دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ٍ اب کچھ تذکرہ ان کہانیوں کا جن میں دفتری ماحول کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔دفاتر کی بو باس سے تکمیل پانے والی ان کہانیوں کو اتنی عمدگی سے بُنا گیا ہے کہ یہ قاری کے تجسس کو گرفت میں لئے رکھتی ہیں۔ان کہانیوں میں بھی معدوم اور متروک ہوتی تہذیب کے کرداروں کا المیہ جھلک دے جاتا ہے۔ افسانہ”غلطی‘بس ہو گئی“ کا اسسٹنٹ افتخار اور ”انا کا نشہ“ کے تین بیوروکریٹ دوستوں میں سے سب سے پیچھے رہ جانے والا کردار ”حکیم“اسی معدوم اور متروک ہوتے معاشرے کے وہ اجزا ¿ ہیں جو اِکا دُکا جہاں تہاں نظر آتے ہیں‘اپنی انا اور احساس کے مبارک بوجھ تلے کراہتے نظر آتے ہیں۔ افسر شوہر کی موت کے بعد بیوہ ہو جانے والی تین ننھی مُنّی بچیوں کی جواں سال ماںافسانہ”شکل و صورت عذاب“ میں فرسودہ اور غیر واجب ہو جاتی ہے تو سوال اُٹھتا ہے کہ کیا انسان خود انسان کے معاشرے میں کبھی اہم اور واجب بھی ہو سکے گا یا یونہی اپنے آپ کو کچلتا‘روندتا اور رسوا کرتا رہے گا۔؟”اب میں کیا کروں“ اور ”شاہ خرچی“ایسے ہی المیوں کی شرحیں ہیں۔ آخر میں مجھے اس کہانی کا تذکرہ کرنا ہے جو اس مجموعے کی پہلی کہانی ہے....”چاہ در پیش“....یہی کتاب کا بھی نام ہے۔اس کہانی کے مرکزی کردارآہیر کی کلائی پر گھڑی بندھی ہے۔کئی کئی سیڑھیاں پھلاند کر بلندیاں پانے والا یہ سرکاری افسر جب پہلی بار افسانے میں داخل ہوتا ہے تو کلائی پر اندر کو کھسک جانے والی گھڑی کو باہر نکالتا ہے اور جب اسی افسانے کے آخر میں آہیر کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ اندر کھسکی گھڑی کو باہر لانے کی کوشش میں ناکام ہو گیا تھا ایک ٹھیٹھ‘بے ضرر‘دھیمے مزاج کے سماجی حقیقت نگار کے ہاں وقت کے بہاو کی اتنی بلیغ علامت مجھے بہت لطف دیتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جہاں جہاں اپنی ہی دھُن میں مگن اور اپنی ہی ڈگر پر رواں کہانی پر ایسے پُر لطف مقامات آتے ہیں‘مجھے یوں لگتا ہے جیسے یونی چیرو تانی زاکی کی کہانی کا گودیا جواںسال حسینہ کی شفاف جلد پر ایک نئی پنکھڑی کا گداز اور رنگ گودنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔متروک ہوتی تہذیب کی جھلک کے ہمراہ کہیں کہیں سے طلوع ہونے والے اسی گداز اور رنگ روپ کی لپک نے ان کہانیوں کو اہم بنا دیا ہے۔

Followers