Saturday, March 28, 2009

جمیل احمد عدیل کے افسانے

محمد حمید شاہد
ہاویہ کے افسانے


’موم کی مریم“ ” زرد کفن میں نخل ایمن“ اور”بے خواب جزیروں میں“ کی کہانیوں کو پڑھتے ہی میں نے جمیل احمد عدیل کا شمار گذشتہ ربع صدی میں اپنی شناخت مرتب کرنے والے ان اَفسانہ نگاروں میں کر لیا تھا جن کا مسئلہ محض وجود کی لذت نہیں ہے ۔ ایسے تخلیق کاروں کو ماورا کا علاقہ اچھا لگتا ہے۔ جمیل احمدعدیل کو بھی یہی بستی بہت لبھاتی رہتی ہے کہ اسی بستی میں رہ بس کر اس کے وجود پر نفی اور اثبات کی پھوار برستی ہے۔ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ ہمارے اس افسانہ نگار کے نزدیک مردہ روحانیت ادب کے بطن میں وہ مردہ بچہ ہے جواندر ہی اندر گل سڑ کرتخلیقی عمل کے وجود کے لیے زہر قاتل بن جاتا ہے ۔ ”ہاویہ “ کی کہانیوں میں اس نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ استخوانی ڈھانچے پر مٹھی بھر گوشت مڑھ کر اس میں اشتہا کی آگ بھر دینے سے آدمی نہیں بنا تھاکہ اس کے پاس دل اور دماغ دونوں ہیں۔ ایک دھڑکتا ہے تو دوسرا سوچتا ہے ۔ ایک لپکتا ہے تو دوسرا منطق مانگتا ہے۔ اسی پورے آدمی کی کہانی کو جمیل احمد عدیل نے کچھ اس قرینے سے لکھا ہے کہ حقیقت اپنی جون بدل کر دیکھتے ہی دیکھتے حکایت ہو گئی ہے ۔ صاحب خدا لگتی کہوں گا کہ وہ افسانہ نگار جن کے پاس پوچھنے کو کوئی بڑا سوال نہیں ہوتا ان کی کہانیاں انجام کار‘ہوسناک بڑھیا چٹائی کا لہنگا‘ کی مثل ہو جاتی ہیں۔ کیا یہ بڑی بات نہیں ہے کہ جمیل احمد عدیل کے ہاں واقعہ محض چھل بٹا نہیں رہتا دانش کا چق ماق ہو جاتا ہے ۔ عقل کیا ہے اور ارداہ کیا؟ نئی اسطورہ کے مقدر میں عبرت کی حکایت بننا ہی کیوں لکھ دیا گیا ہے؟یہ جو آدمی معدوم ہو رہا ہے تو اس کے کیا معنی ہیں؟‘ جب قدموں تلے کی مٹی اچھلنے لگتی ہے تو وجود کی تختی پر کیا نقش بنتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو اس کے افسانوں میں ڈھل کر ایک بنیادی سوال کا حصہ ہو جاتے ہیں ‘ یہی کہ یہ ناس مارا آدمی آخر ہے کیا اور اس موئے کی حقیقت کیا ہے؟؟ .... جمیل احمد عدیل میرے لیے یوں بھی لائق توجہ ہو گیا ہے کہ اس نے کہانی کے متن میں سوال کی آنچ رکھنے کی للک میں واقعہ کے ساتھ ساتھ زبان اور بیان کو بھی اپنے ڈھنگ پرلا کر مختلف کرلیا ہے ۔

No comments:

Post a Comment

Followers