Monday, March 2, 2009

وقار بن الہی کے افسانے

چاہ درویش اورپنکھڑی کا گداز
وقاربن الہی کی کتاب کا دیباچہ
محمدحمیدشاہد
انتظار حسین نے حال ہی میںگزشتہ صدی کے اہم جاپانی افسانہ اور ناول نگار یونی چیرو تانی زاکی کی جو کہانی ”مکڑی کا جال“ کے عنوان سے ترجمہ کی ہے‘اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ گزر چکی صدی کے آغاز میں لکھی گئی تھی .... لگ بھگ اسی عرصے میں جب اردو افسانہ پنچوں کے بل چل رہا تھا۔ یہ جاپانی کہانی ایک نوجوان گودیے کے گرد گھومتی ہے....یکتائے روزگار گودیا منی کیچی‘جو یوں بدن گودتا تھا کہ سارے نقوش‘گداز اور ندرت کے طلسم سے جاگ اُٹھے تھے۔ ایک صدی کی معقول عمر پا لینے والی ہماری کہانی کا بدن بھی کچھ ایسے ہی گداز اور ندرت کا متمنی رہا ہے‘بخت کی یاوری دیکھئے کہ یہ سب کچھ اس کا مقدر بنا بھی‘تبھی تو اس میں زندگی کی گونج باقی اصناف کے مقابلے میں ذرا زیادہ توانا ہے اور قدرے صاف سنائی دیتی ہے۔اس کے باوصف یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ وقت کے کچھ مخصوص اور محدود ٹکڑوں میں کہانی کے بدن پر نقش ہی نقش گونجنے لگے‘لذت منہا ہو گئی یا پھر لذت ہی لذت رہ گئی....زبان کی لذت ‘ بیان کی لذت یا باطنی آشوب کی لذت.... رہے کہانی کے باقی نقوش‘تو وہ اد بدا کر گڈ مڈ ہو گئے۔ وقار بن الہٰی کے وہ اکاون افسانے جو تین مختلف مجموعوں ”اترنا دریا میں“(۲۹۹۱ئ)‘ ”کس سے کہے وہ“(۲۹۹۱ئ)اور ”چاہ در پیش“(۰۰۰۲ئ) میں جگہ پا کرمنظرِ عام پر آ چکے ہیں۔زماں کی اسی ہنگامہ خیز تھگلی میں تخلیق ہوئے ہیں۔زیادہ تر افسانوں کا زمانہ ماضی قریب کا وہ عرصہ ہے جس کے بارے میں اپنی جانب سے کچھ کہوں گا تو لائق گرفت ٹھہروں گا‘ لہٰذا ”نیا پاکستانی افسانہ‘نئے دستخط“ کے نام سے ۳۸۹۱ ءمیں دہلی سے چھپنے والے انتخابات کے پیش لفظ سے چند جملے پڑھ لیجئے۔”جب برستانی خس و خاشاک دم توڑتی ہوئی لہروں کے ساتھ اپنے اپنے کناروں تک جاتے ہیں اور صاف نتھرے ہوئے پانی میں کنول اور کریمو اگنے لگتے ہیں‘کوئی شک نہیں کہ اس دور میںگاڑا پاٹ پودے بھی پیدا ہوتے ہیں‘جو آہستہ آہستہ زمین کو بلند کرتے جاتے ہیں اور پانی کم سے کم ہو جاتا ہے لیکن یہ عمل سالہا سال کے عمل دخل کے بعد ہوتا ہے۔فی الوقت اردو افسانے کی صورتِ حال یہی ہے کہ شور شرابہ تقریباً ختم ہو چکا ہے‘ یعنی اب راتوں رات شہرت کا امکاں نہیں کے برابر ہے۔“ طرفہ تماشا دیکھئے کہ جب شہرت بٹ رہی تھی تو وقار بن الہٰی نے ادھر دھیان نہ دیااور جب مشہور ہونے کا زمانہ لد چکا تو وہ یکے بعد دیگرے تین کتابیں اور ایسی کتابیں دے چکا ہے جن میں نہ تو جنسی کشا کش ہے‘نہ کہانیوں سے بر گشتہ باطنی الجھاووں کا مجرد نوحہ۔۔۔۔اور حیرت یہ ہے کہ کہانی کے وجود پر تین حرف بھیجے گئے ہیں نہ گزر چکے وقت پر ملامت کی گئی ہے۔۔۔عام‘بے ضرر سی کہانیاں جو کہیں بھی مشتعل نہیں کرتیں اور عین ایسے زمانے میں لے آنا کہ راتوں رات شہرت ہتھیانے کا زمانہ بھی بیت چکا ہو‘مجھے یہ باور کرانے کے لئے کیا کافی نہیں ہے کہ وقار بن الہٰی ہو نہ ہو‘اپنے ہم عصروں سے پچھڑا ہوا افسانہ نگار ہے۔ جن دنوں‘یونی چیرو تانی زاکی کی کہانی کا گودیا سولہ سترہ برس کی حسین لڑکی کے خوب صورت پاو ¿ں دیکھ کر اسے بتا رہا تھا کہ یہ پاو ¿ں اس نے پہلے بھی دیکھ رکھے تھے‘عین اسی عرصے میں ہمارے ہاں کا کہانی کار داستاں‘قصے‘کہانی اور تمثیل کے پائنچوں سے جھانکتے کہانی کے وہ ننگے قدم دیکھ رہا تھا جو ادھر امریکہ‘فرانس‘روس ‘برطانیہ اور جرمنی میں گداز قالینوں پر چلتی رہی تھی۔یہ جو کہانی کے پاو ¿ں دیکھنے کا عمل ہے‘پا پرستی‘عضو پرستی اور اشیا پرستی یعنی Fetishism کی حد تک پاو ¿ں دیکھنے کا عمل....یہ تین دہائیوں سے بھی کچھ زیادہ ہی عرصے پر محیط رہا۔حتی کہ بھاری پائنچوں سے جھانکتے قدم کچھ اور باہر نکل کرپٹخنے لگے‘چنگاریاں اُڑیں‘انگارے دہکے‘لذت کا چٹخارہ نعرہ بن گیا۔۔۔ایسا نعرہ جو آج کل کی Feminism کا پھریرا اُڑاتی عورت اپنے ہی حسن سے باغی ہو کر لگاتی ہے۔ جب اندر کچھ نہ رہا اور سب کچھ بقول ممتاز مفتی ”حلوائی کی دکان کی طرح باہر تھالوں میں سج گیا“ تو وہ نسل اُٹھی جس نے اپنے تئیں باہر کی تندی کوخالی ہو کر سبک ہو چکے اپنے اندر کی سمت موڑ دیا۔علامت‘استعارہ‘تجرید‘نئی حقیقت نگاری‘تشکیک‘باطن‘ہیجان اور ارتکاز جیسے الفاظ لغت سے نکل کر قلم اور زبان کی انیوں پر ناچنے لگے....یوں کہ بوئیے میں بند کہانی کی کمر‘سینہ‘پنڈلیاں ماپنے کا کوئی رائج پیمانہ مستند نہ رہا۔کہاں آغاز ہے‘کہاں وسط اور کہاں انجام‘کس کو ہوش تھا کہ تلاش کر کے فیتے لگاتا‘سبھی اس میں بہہ گئے تھے۔ وقار بن الہٰی بچ گیا.... کیسے بچ گیا؟تعجب ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ اس کسان کی طرح ہے جو آسمان سے مکمل وابستگی کو جزو ایمان بلکہ عین ایمان جان کر بادلوں کی چال دیکھتا ہے‘زمین پر ہل چلا کر پہاڑوں کی اور دیکھتا ہے‘دعا کی صورت آسمان کی سمت اُٹھی اوک میں امید اور بیج ایک ساتھ رکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ جو اس کا فرض تھا‘اس نے پورا کیا۔ طویل انتظار کے زائچے کھینچنے والا‘یا پھر کہہ لیں کہ تبدیلی سے بِدکا ہوایہ شخص ‘یوں لگتا ہے جیسے وقت کے دھارے سے باہر پڑا ہے۔اس کہانی اڑتلا لئے ہوئے جو اسے ۵۵۹۱ ¿ میں پہلی بار ملی تھی۔اپنے آغاز‘وسط اور انجام سے مربوط رنگ اور آواز میں نمی قبول کر چکی پڑا قے کی گوٹ جیسی‘ذات والی بھی قائم بالذات بھی‘ قدرے ہٹ دھرم اور کج مریز۔ یہ جو میں نے وقار بن الہٰی کی کہانیوں کو رنگ میں پڑاقے کی گوٹ جیسی کہہ دیا ہے تو معاف کیجئے گا کہ آپ کو اس میں سارے رنگ نہیں ملیں گے‘جنس کا رنگ تو ایسا ہے کہ اسے تو آپ منہا ہی سمجھیں۔کہیں یہ ”ملعون “جو اپنے سینے کے زور سے کہانی میں در بھی آئی ہے تو اس گھُس بیٹھی کا ذکر یوں ہوتا ہے جیسے بادلِ ناخواستہ ہو رہا ہو۔اپنی گفتگو کو ”چاہ درپیش“ تک محدود کرتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے سات افسانے آب زم زم سے دُھلے ہوئے ہیں۔آٹھویں افسانے ”کڑی سزا“ میں جب ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نمودار ہوئی تھی تو وقار بن الہٰی کے پھسلنے کی امید بندھی تھی....مگر دیکھئے تو وہ کیسے صاف صاف بچ نکلا۔لڑکی کو جھٹکے سے اُٹھایا‘کاو ¿نٹر پر ہتھیلیاں ٹکانے دیں‘قدرے اور جھکا دیا‘آنکھوں میں آنکھیں بھی ڈال دیں۔وہ جس قدر مسکرا سکتی تھی‘مسکرائی حتیٰ کہ ”یس پلیز“کے الفاظ سنتے ہوئے افسانہ نگار کی نظریں گریبان تک پہنچ گئیں مگر اگلے ہی جملے میں اطلاع عام کا اشتہار کہہ رہا تھا کہ گریبان تو اندر سے خود افسانہ نگار کو جھانک رہا تھا جبکہ افسانہ نگار بیچارہ تو اس شئے لذیذ کو یوں پرے دھکیل رہا تھا جیسے شوگر کا مریض چائے کی پیالی اُٹھاتے ہوئے چینی دان کو پوروں سے پرے دھکیل کر تسکیں پا لیتا ہے۔ مگر لطف تو یہ ہے کہ یوں دھکیل دی جانے والی مردود جنس افسانہ ”بھوک“ میں عجب طمطراق سے آتی ہے۔پرتھ کے ہوائی اڈے پر ایک کانفرنس کے مندوب کی حیثیت سے اترنے والے پانچ دوستوں کی شوخیوں کے بیچ جنم لینے والی اس کہانی میں جہاں انفرادی کرداروں کا خوب صورت مطالعہ ملتا ہے ‘وہیں راندہ درگاہ ہو چکی کٹھل جنس کا ایک دلچسپ پہلو عجب ذائقہ دے جاتا ہے۔جوشی‘پرکاش‘حسام الدین‘ترپاٹھی اور خود اپنے کرداروں کے جس قدر اور جیسے خدوخال افسانہ نگار نے اُبھارے ہیں‘سب افسانے میں یوں سج گئے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔۔۔۔حتیٰ کہ راہ چلتی ان عورتوں کا سراپا بھی لذیذ ہو گیا ہے جنہیں افسانہ نگار یوں دیکھتا ہے جیسے نظروں سے پرے دھکیل رہا ہو۔۔۔بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے دیہاتوں کے وہ مہذب بزرگ جو بچوں کو پیار بھی دھپا لگانے کے بعد کرتے ہیں۔اس کہانی میں ترپاٹھی کے اندر سے اُس ٹھاٹھیں مارتی جنس کو سراغ لگا کر برآمد کیا گیا ہے جو جسم دیکھنے کی متمنی ہوتی ہے‘اس کی خوشبو سونگھنا چاہتی ہے‘اس کے تذکرے سے نطق کو معطر کرتی ہے مگر اتنی سکت نہیں رکھتی کہ اسے برت سکے۔ ”نام لیوا“ اور وہ افسانہ‘ جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں یعنی ”کڑی سزا“.... ”بھوک“ کی طرح سفر نامے کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔”نام لیوا“ کی کہانی اس حقیقت سے پردہ اُٹھاتی ہے کہ ایمان کی مہک ریاستی جبر اور تہذیبی اُکھاڑ پچھاڑ کے با وصف اندر ہی اندر‘شریانوں میں‘ سانسوں میں اور روح میں نسل در نسل سفر کرتی ہے۔تاشقند کے حسین اور قبیح مناظر دکھاتی کہانی کا رُخ جب شہر سے مضافات کے طرف مڑتا ہے تو جھریوں بھرے چہرے‘جلی ہوئی رنگت اور چیتھڑوں میں ملبوس قزاق کسان سامنے کی میز پھلانگ کر دوسری جانب آتا ہے اور ”السلام علیکم“ کہہ کر سرخ موٹے انار انہیں محض اس لئے پیش کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں‘اس مذہب سے متعلق جو نسلوں سے ان کے اندر سے‘بے دردی کے ساتھ‘تقریباً کھرچ ہی دیا گیا تھا‘تو میرا دِل جذبوں کی حِدت سے لبا لب ہو جاتا ہے۔ افسانہ ”کڑی سزا“ میں بھی جذبوں کی یہی بہتات ہے۔کہانی میں ایک باپ ہے جعفری ‘جو واشنگٹن میں بس کر مسٹر جیفرے ہو گیا ہے۔اس نے واشنگٹن میں ایک کامیاب شخص کی طرح سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔ذاتی مکان‘گاڑی‘دولت‘بیوی اور بچیاں۔مگر حادثہ یہ ہواہے کہ بچیاں جوان ہو گئی ہیں۔مغرب کی عورت کو مغربی بن جانے والے مرد کے گھر سے مشرق کی بو آنے لگتی ہے لہذا وہ گھر چھوڑ گئی ہے۔لڑکیاں چِکنی جلد والی مچھلیوں کی طرح باپ کے ہاتھوں سے پھسلے جا رہی ہیں اور انہیں مغربی تہذیب کا مگر مچھ قسط در قسط نگل رہا ہے۔یہی وہ کڑی سزا ہے جو اپنی تہذیب‘اپنی زمین‘اپنی ماں ‘اپنے لوگوں اپنے روحانی اور فکری اثاثے پر دولت ‘مادی آسائشوں اور بے جہت روشن خیالی کو ترجیح دینے والوں کا مقدر ہو جاتی ہے۔ افسانہ ”پہچان“ میں افسانہ نگار کا اکل کھرا اپنا آپ پوری طرح سما گیا ہے۔اسلام آباد جیسے مصنوعی شہروں کے مکین ایک مرحلے پر اندر سے اکیلے ہو جاتے ہیں۔افسانہ ”مہلت“ کا آخری جملہ اسی اکیلے رہ جانے والے کے کرب کی تفہیم رکھنے والے کے قلم سے نکلا ہے۔تھوڑی سی مہلت بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے ....تھوڑی سی مہلت ان کو پھولتا پھلتا دیکھنے کے لئے۔۔۔اور آخر میں تھوڑی سی مہلت کہ وہ اکیلی نہ رہ جائے جو ساتھ والی چارپائی پر بولتے بولتے تھک کر سو گئی ہے اور اب خراٹے لئے جاتی ہے....ایک معصوم مگر شدید خواہش کہ کہیں وہ اکیلی نہ رہ جائے۔ ”ڈیڑھ صدی انگاروں “میں بھی یہی اکیلے رہ جانے والے ماں باپ ہیں اور جذبوں کا وہ سمندر جو ان کے سینوں میں موجزن ہے۔ماں دلگیر ہے۔ماں سے زیادہ باپ کا دِل دکھی ہے مگر اسے اپنی بیوی کو دلاسا دینا ہے لہٰذا دل پر جبر کرتا ہے،یوں کہ ضبط کرنے والے کے اپنے آنسو نکل جاتے ہیں۔افسانہ ”بڑی ماں“بھی سچے اور کھرے جذبوں سے بنایا گیا ہے۔کہانی میں ایک ماں ہے جو بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہی ہے۔ایک باپ ہے جو جذبوں کے آگے روک باندھتا ہے حتیٰ کہ وہ مرحلہ آ جاتا ہے جب ایک ماں ایک بیوی سے شکست کھا جاتی ہے۔ماں باپ اور اولاد کے بیچ محبت کی تکون بناتی ساری کہانیوں میں افسانہ نگار خود نہ صرف پیار سے دھپا مار کر منہ چومنے والے بزرگ کی طرح جلوہ دکھاتا رہتا ہے‘ہمیں وہ تہذیب اور جذبے بھی دکھاتا ہے جو رفتہ رفتہ متروک ہو رہے ہیں یا جنہیں ہم نادانی میں متروک کر دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ٍ اب کچھ تذکرہ ان کہانیوں کا جن میں دفتری ماحول کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔دفاتر کی بو باس سے تکمیل پانے والی ان کہانیوں کو اتنی عمدگی سے بُنا گیا ہے کہ یہ قاری کے تجسس کو گرفت میں لئے رکھتی ہیں۔ان کہانیوں میں بھی معدوم اور متروک ہوتی تہذیب کے کرداروں کا المیہ جھلک دے جاتا ہے۔ افسانہ”غلطی‘بس ہو گئی“ کا اسسٹنٹ افتخار اور ”انا کا نشہ“ کے تین بیوروکریٹ دوستوں میں سے سب سے پیچھے رہ جانے والا کردار ”حکیم“اسی معدوم اور متروک ہوتے معاشرے کے وہ اجزا ¿ ہیں جو اِکا دُکا جہاں تہاں نظر آتے ہیں‘اپنی انا اور احساس کے مبارک بوجھ تلے کراہتے نظر آتے ہیں۔ افسر شوہر کی موت کے بعد بیوہ ہو جانے والی تین ننھی مُنّی بچیوں کی جواں سال ماںافسانہ”شکل و صورت عذاب“ میں فرسودہ اور غیر واجب ہو جاتی ہے تو سوال اُٹھتا ہے کہ کیا انسان خود انسان کے معاشرے میں کبھی اہم اور واجب بھی ہو سکے گا یا یونہی اپنے آپ کو کچلتا‘روندتا اور رسوا کرتا رہے گا۔؟”اب میں کیا کروں“ اور ”شاہ خرچی“ایسے ہی المیوں کی شرحیں ہیں۔ آخر میں مجھے اس کہانی کا تذکرہ کرنا ہے جو اس مجموعے کی پہلی کہانی ہے....”چاہ در پیش“....یہی کتاب کا بھی نام ہے۔اس کہانی کے مرکزی کردارآہیر کی کلائی پر گھڑی بندھی ہے۔کئی کئی سیڑھیاں پھلاند کر بلندیاں پانے والا یہ سرکاری افسر جب پہلی بار افسانے میں داخل ہوتا ہے تو کلائی پر اندر کو کھسک جانے والی گھڑی کو باہر نکالتا ہے اور جب اسی افسانے کے آخر میں آہیر کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ اندر کھسکی گھڑی کو باہر لانے کی کوشش میں ناکام ہو گیا تھا ایک ٹھیٹھ‘بے ضرر‘دھیمے مزاج کے سماجی حقیقت نگار کے ہاں وقت کے بہاو کی اتنی بلیغ علامت مجھے بہت لطف دیتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جہاں جہاں اپنی ہی دھُن میں مگن اور اپنی ہی ڈگر پر رواں کہانی پر ایسے پُر لطف مقامات آتے ہیں‘مجھے یوں لگتا ہے جیسے یونی چیرو تانی زاکی کی کہانی کا گودیا جواںسال حسینہ کی شفاف جلد پر ایک نئی پنکھڑی کا گداز اور رنگ گودنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔متروک ہوتی تہذیب کی جھلک کے ہمراہ کہیں کہیں سے طلوع ہونے والے اسی گداز اور رنگ روپ کی لپک نے ان کہانیوں کو اہم بنا دیا ہے۔

No comments:

Followers