Monday, December 31, 2012

نیلی آنکھوں کے خواب


نورین طلعت سحر کے افسانے
محمد حمید شاہد کے قلم سے ’’نیلی آنکھوں کے خواب‘‘ کا دیباچہ

اردو افسانے کی تاریخ میں مٹھی بھر خواتین کہانی لکھنے والیوں کا ذکر آتا ہے اور یہ بھی اپنی جگہ واقعہ ہے کہ ان میں سے چند ہی ہوں گی جو اپنے مزاج کو افسانے کی جادوئی صنف کے باطن سے ہم آہنگ کر پائی ہوں گی۔ باقیوں کا قصہ یہ ہے کہ کہانی کے عین آغاز میں ہی یا تو وہ خود بینی اور خود رائی کاشکار ہوجاتی ہیں یا پھر انہیں اپنی قبیل کو مظلوم ثابت کرنے کا ہوکا لگ جاتا ہے اور انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ تو کہانی لکھنے جا رہی تھیں ۔ نوریں طلعت سحر کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے مجھے لگا ہے کہ اپنی تخلیقی زندگی کی ابتدا ہی میں اس کے قدم اس ڈگر پر پڑنے لگے ہیں جہاں عورت نہ تو محض وجود رہتی ہے ۔۔۔چکنا چمکتا ہوا۔۔۔اور نہ ہی ایک زخم ہو جاتی ہے ۔۔۔دکھتا ہوا اور رستا ہوا۔
عورت کیا ہے؟ دِکھنے کی شئے یا تہذیب کا زخم‘ جنس اور لذت یا پھر تصویر کائنات کا بس ایک رنگ؟یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر اٹھائے جاتے ہیں ۔ کبھی جان بوجھ کراور کبھی یہ خود ہی جنگلی گھاس کی طرح اُگ آتے ہیں ۔ اس خود رو گھاس کو کاٹتے رہنے کی للک رکھنے والے بہت سے گھسیاروں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں پہلے پہل رومانوی رویے کے کچے اور لسلسے خوابوں نے کچھ کرنے ہی نہ دیا‘پھر وہ ترقی پسندوں کے جلوس میں جاگھسے اور نعرہ بازی کے مشغلے کو ہی افسانے کا چلن سمجھنے لگے ۔ اس مزاج کے لکھنے والوں کو اپنی زمین اور اپنے پیاروں کے ساتھ ایمان اور یقین کی سطح پر جڑی عورت ڈھنگ سے کیسے دکھائی دے سکتی تھی کہ انہیں تو نعرے لگاتی‘پاؤں کی مٹی جھاڑتی‘مردوں کی چھاتی میں جھنڈے کا نیزہ گاڑتی عورت بھلی لگتی تھی۔اور اب یہ ہورہا ہے کہ عورتوں کی نام نہاد مغرب زدہ تحریکیں ان لکھنے والوں کو اس عورت سے بہت دور لے گئی ہیں جس کے وجوداور چلن سے مشرق کا تہذیبی مزاج مرتب ہوتا ہے۔
طلعت نورین سحر نے یوں کیا ہے کہ اسی مشرقی تہذیب کی علامت عورت کو بے ہنگم تبدیلی کی سان پر چڑھے وقت کے مقابل لا کھڑا کیا ہے ۔اس شاطر وقت کے مقابل کہ جس نے مٹی کی مہک میں مست رہنے والے انسانی معاشروں سے بے وفائی کا نہ صرف چلن کیا ہے ‘انہیں لتاڑ کر رکھ دینے والوں سے گٹھ جوڑ بھی کر لیا ہے۔ میں نے سحرکے افسانے پوری توجہ سے پڑھے ہیں اور ہر بار یوں ہوا ہے کہ مجھے اس کا اپنا وزن شاطروقت کے پلڑے میں پڑتا دکھائی نہیں دیا۔ میرے لیے یہ بات کوئی کم اہم نہیں ہے کہ سحر وقت سے مات نہ کھانے کا حوصلہ لے کر کہانی کی حقیقت کے مقابل ہو گئی ہے۔ یہ جو میں نے اپنی افسانہ نگار کا وجود وقت کے پلڑے سے الگ دکھایا ہے تو اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا وزن ہر بار عورت کے ان معصوم کرداروں کے حق میں جاپڑتا ہے جو اس نے بڑی محبت سے جذبوں کی زبان میں تراشے ہیں ۔ بل کہ یوں ہے کہ لگ بھگ ہر بار اس نے کمال تخلیقی حکمت سے عورت کو اس کے پورے وجود کی حضوری کے ساتھ توتا چشم وقت کے مقابل کھڑا کرکے زیادہ بامعنی بنادیا ہے۔
طلعت نورین سحر کے ہاں کہانی کا ٹھوس اور ٹھکا ہوا وجود لائق اعتنا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ واقعات کو اپنی زمانی ترتیب میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ لائے بغیر کیسے مدہم بہاؤ میں بہنا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب وہ کسی کہانی کا متن مرتب کر رہی ہوتی ہے تو وہ اپنے وجود کی مہک اور اپنے بھیتر کے پاکیزہ جذبوں کو بھی حاضر رکھتی ہے ۔ یہی خوشبو اور یہی جذبے سطر سطر میں جذب ہوکر ایک لَو سی جگا دیتے ہیں۔ سحر کی کہانیوں میں ایسے مقام بھی آتے رہتے ہیں کہ جب یہ لو بہت تیز اور زیادہ توجہ مانگنے والی ہو جاتی ہے ۔ اس چوندھ میں قاری کیا ‘خود کہانی کے واقعات پربھی ٹھٹھک کر ٹھہرنالازم ہوجاتا ہے ۔ تاہم جہاں جہاں اس نے واقعہ کے اسراع اور کرداروں کے انہماک کے اندر اس لَو کو رواں کیا ہے وہاں تحریر کا لطف اس دھیمی اور جادو اثر خوشبو کا سا ہوگیا ہے جو پڑھنے والے کے وجود کا حصہ ہو جایاکرتی ہے۔ سحر کی کہانیوں میں جزیات نگاری کو حیلے کے طور پر اختیار نہیں کیا گیا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ منظر نگاری کی طرف متوجہ نہیں رہی ہے۔ کہانی کا مطلوبہ منظر اس کے بیانیے کے اندر سے پھوٹتا ہے ۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ منظر تصویر کی طرح جامد نہیں ہوتا تصور کی طرح سیال اورمتحرک رہتا ہے۔محبت کی شدید طلب‘ انسانی وجود کا احترام اور سماجی زندگی کے حوالے سے اعلی آدرشوں کا سحر اس کے افسانے کے بنیادی مزاج کو تشکیل دیتے ہیں۔
طلعت نورین سحرنے (ادبی مراکز سے دو ر ‘ اٹک میں رہتے ہوئے ) اپنی تخلیقی ادبی زندگی کے آغاز میں انسانی وجود کوکچل ڈالنے والی تلخ حقیقتوں کوجس سنجیدگی سے گرفت میں لینے کی سعی کی ہے اسے توجہ سے دیکھا جانا چاہیے ۔ کیا یہ بات کم اہم ہے کہ اس پہلے مرحلے ہی میں وہ اخلاص نیت سے اس حقیقت کو سمجھنے میں جت گئی ہے کہ ہر افسانے کے عناصر کو ایک دوسرے سے مختلف کرنا کیوں ضروری ہوتا ہے ۔ ہیئت اور مواد کا امتزاج کیسے بنتا ہے۔ زبان اور ماحول کو ہم صورت کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔ سحر جس خلوص اور طلب کی شدت کے ساتھ کہانی سے جڑگئی ہے اس نے نہ صرف مجھے اِس کتاب کی کہانیوں کی طرف متوجہ رکھا ہے‘ بجا طور پر اس امید سے وابستہ بھی کر دیا ہے کہ آگے چل کروہ اور بھی بھر پور کہانیاں لکھے گی اور اپنے لطیف احساس اور حساس طبعیت سے اسی دھج سے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو کریدتی چلے جائے گی۔

محمد حمید شاہد
اسلام آباد

No comments:

Post a Comment

Followers