Monday, December 31, 2012

پرویز انجم کی کہانیاں

  پرویز انجم کی کہانیاں: ایک تاثر

اردو افسانے پر ایک ایسا زمانہ بھی ہوگزرا ہے کہ تخلیق کاروں کے پاس جیتے جاگے کردار نہ رہے تھے۔ کہانیاں لکھنے کا دعویٰ رکھنے والے’’وہ‘‘ ’’میں‘‘ ’’ تم ‘‘ سے کرداروں کے ہیولے بنا بناکر افسانے کے نام پر انشائیے تراشتے اور کام چلا لیاکرتے ۔ یہی وہ غیر تخلیقی رویہ تھاجس نے کہانی اور قاری کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کر دی تھی ۔ پرویز انجم کے افسانوں کی بنیادی خوبی یہ بنتی ہے کہ حاشیے سے بھی باہر نکل جانے والاکردار‘ زندگی کی ساری ہماہمی کو لے کر عین متن کاحصہ ہو گیا ہے اور کہانی کی روح بن کر قاری سے مکالمہ کرنے لگا ہے ۔ ماننا ہوگا کہ جسے اپنے کرداروں کو سوچنابنانا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے متحرک کرنا آتا ہو و ہی اپنے قاری سے کلام کا استحقاق رکھتا ہے اور اسی پر کہانی کا سلیقہ اور بھرپورپن کھل سکتا ہے۔ اگر ایسے میں صاف ستھرا بیانیہ بھی دست رس میں ہوتو سونے پر سہاگہ‘ کہ ایسے میں وہ ڈھنگ کا افسانہ بھی لکھ سکتا ہے۔ پرویز انجم کا شمار ایسے ہی خوش بختوں میں ہوتا ہے۔ ’’مونگرے کے پھول‘‘ ’چوبارے والی لڑکی‘‘ ’مسلے ہونٹ‘‘’’کلیان پور‘‘ ’’مہاجر پرندے‘‘ ’’کنگن کی کھنک‘‘اور ’’جہاں ٹیپو گِرا تھا‘‘ جیسے افسانوں کا جہاں پلاٹ پختہ اورکہانی گتھی ہوئی ہے‘ وہاں بیانیہ رواں اور تخلیقی ہے ۔ اس رس دار بیانیے نے کرداروں میں زندگی کی ہمک اور لذت بھر دی ہے ۔ دہشت ‘تقسیم‘ اجنبی مہجری منظرنامہ میں محبت ‘گزر چکے وقتوں کی تیزدھار یادیں اور تاریخ کا جبر‘ یہ سب کچھ پرویز انجم کی کہانی میں بطورmotif یوں آتے ہیں کہ بیانیہ تھم تھم کر اور پھیل پھیل کر چلنے کے باوجود قاری پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دیتا ۔ اسی برتے پر میں امید کر سکتا ہوں کہ یہ کہانیاں اپنے پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ بنا لینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
محمد حمید شاہد
اسلام آباد

No comments:

Post a Comment

Followers