Monday, December 31, 2012

رخشند ہ کوکب اور عورت کا مقدمہ


رخشند ہ کوکب اور عورت کا مقدمہ


’’شام سے پہلے آنا ‘‘ میں رخشندہ کوکب کا خوب صورتی اور نزاکت سے تراشا ہوا الہڑجیا کا کردار کہیں سے بھی باغی عورت کا کردار نہیں ہے لیکن وہ شاہ جہاں سے شادی سے انکار کر دیتی ہے۔ زندگی کو خواب کی طرح دیکھنے اور اس میں ان دیکھے رنگوں کے حسن کو پالینے کی جستجو نے اس کے قدموں کو لہولہان اور اس کے جسم کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی کہانی کا ایک اور وجیہہ کردار شاہ جہاں آخر کار اس عورت کو مکمل تباہی سے بچا لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ رخشندہ کے دوسرے ناولٹ ’’تیری جستجو میں بہار ہے‘‘ کا نسائی کردارگل بھی اتنی ہی ریاضت اور سلیقہ مندی سے تراشا گیا ہے ۔ تاہم گل کی کہانی میں عورت کو مکمل تباہی سے بچالینے والا مرد عیسی ہے جو ادھر مغرب میں ہی پلا بڑھا ہے۔ عیسی کی ماں اپنے بیٹے کی شادی اپنی بہن مریم کی بیٹی سارہ سے کرنا چاہتی تھی ۔ اگرچہ معاہدے کے تحت عیسی کے ماں باپ نے بیٹے کو اپنی مرضی سے مذہب منتخب کرنے کا اختیار دے رکھا تھا لیکن ہوتا یوں ہے کہ عیسی خود بخود اپنے مسلم پاکستانی باپ کے نقش قدم پر چل نکلتا ہے اور اپنے باطن کو مشرقی رشتوں کی روح سے ہم آہنگ کر لیتا ہے۔
رخشندہ کوکب کی دونوں کہانیوں کا دوسرا مرد گمراہ اور حددرجہ کمینہ ہے۔ دونوں کہانیوں میں عورت کا کردار لگ بھگ ملتاجلتا ہے ۔ دونوں ایک سانادرست فیصلہ کرتی ہیں۔ پہلی کہانی میں اپنے نئے پن کی تاہنگ سے جڑ کر جبکہ دوسری کہانی میں اپنے قانونی اختیار کو حد سے بڑھی ہوئی سعادت مندی کی آگ میں جھونک کر۔ دونوں کہانیوں میں عورت اگراس غلط فیصلے سے بچ جاتی توان سب دکھوں سے کنی کاٹ کر نکل سکتی تھی جو دونوں مردود مردوں نے ان پھول جیسی لڑکیوں کی جھولی میں ڈالے ہیں ۔ دونوں کہانیاں اس لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہیں کہ ادھر کا شاہ جہاں اور ادھر کا عیسی‘ مردوں کے وقار کوآخر کار بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
رخشندہ کوکب کے ناولٹ میں مہجری منظرنامے نے کہانیوں میں قاری کی دلچسپی کو دوچند کردیا ہے۔ اگرچہ کئی ایسے مقام آتے ہیں جہاں واقعہ ساکت ہوجاتا ہے اور فنکار کا قلم رواں رہتا ہے‘ اور ایسے بھی مقام آتے ہیں جن کا براہ راست افسانے کے موضوع سے تعلق نہیں بنتا ‘مثلا محبت اور اس کی ابتلا کی ان کہانیوں میں سیاسی اور معاشی صورت حال پر تبصرہ‘ تاہم یہ سب مل کر کہانی کی فضا بنا دیتے ہیں اور ان کہانیوں کی زمانی تعیین بھی کر دیتے ہیں ۔
رخشند ہ کوکب نے ’’شام سے پہلے آنا‘‘ اور ’’تیری جستجو میں بہار ہے‘‘‘ میں اپنے ڈھنگ سے‘ عورت کا مقدمہ لکھ دیا ہے ۔ لیجئے مجھے یہاں تہذیبی عورت کا مقدمہ لکھنا چاہیئے تھا کیوں کہ یہ اس عورت کا مقدمہ ہے ہی نہیں جو نام نہاد روشن خیالی کا پھریرا اٹھا کر اپنی اقدار سے برگشتہ ہو چکی ہے ۔ یہ دونوں ناولٹ اہلے گہلے پھرنے والی‘ بے سمت اور اپنی جڑوں سے اعتنا نہ رکھنے والی عورت کا مقدمہ ہو ہی نہیں سکتے اور نہ ہی کسی ایسی عورت سے کوئی مطالبہ رکھتے ہیں جس نے مشرقی رشتوں کی پاکیزگی کو جھٹک دیا ہو اور وہ بدن کے ڈھلک جانے والے ماس کے مان اور اسی ماس کی ابلہی کارگزاری کی اکڑنت کے بھرے میں مبتلا ہوگی ہو۔ یہ دونوں ناولٹ تہذیبی عورت کا مقدمہ ہوکر یوں اہم ہو گئے ہیں کہ صارفیت زدگی کی زد پر آئے عہد میں کہ جس میں خاندان ٹوٹتے چلے جارہے ہیں‘ دونوں کہانیاں مادیت سے کنی کاٹ لینے اور مرد اور عورت کے پاکیزہ رشتوں کو اخلاص کی بنیاد پر پھر سے استوار کرنے پر اکساتی ہیں ۔

محمد حمید شاہد
اسلام آباد/۲۶ نومبر ۲۰۰۸

No comments:

Post a Comment

Followers