Monday, December 31, 2012

بشریٰ جمال کے افسانے اورعورت کا مقدمہ


بشریٰ جمال کے افسانے اورعورت کا مقدمہ

میں نے بشریٰ جمال کے واقعے پر انحصار کرنے کی بجائے وقوعے اور سانحے کو معنویت کے اسراع سے اُجال دِینے والے افسانوں کو پڑھا ہے اور سوچ رہا ہوں کہ یہ جو سعادت حسن منٹو نے دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب ’’نٹنی منم ‘‘ کے میراجی کے اردو ترجمہ کے دیباچہ میں شدیدجملے لکھ دیے تھے‘ توآخر کس جھونک میں آکر اور کس ترنگ میں لکھ دیے تھے؟
سعادت حسن منٹو نے کہا تھا:
’’۔۔۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ اِن تمام باتوں کو قلم بند کرنے والا ایک مرد ہے۔۔۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لیے کہ عورت خواہ وہ بازاری ہو یا گھریلو، خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا۔ ‘‘
اصولاًمجھے راست بشریٰ جمال کے افسانوں پر بات کرنی چاہیے مگر اس کا کیا کیجئے کہ خود بشریٰ نے سیدھے سبھاؤ کہانیاں لکھ کر الگ ہوجانے پر اِکتفا نہیں کیا ہے۔ اس نے‘ اگر ڈھنگ سے آنکا جائے تو‘ محض کہانی لکھنے پر عورت کا مقدمہ لکھنے کو ترجیح دِی ہے ۔ اُس عورت کا مقدمہ جو ہمارے ہاں یا تورواج کے کئی شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے یا پھریوں آزاد ہے کہ بس دِکھنے کی شے ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔بنی سنوری ‘سجی سجائی ۔۔۔ پہلے مہندی‘چوڑی ‘چوٹی ‘مسی اور رنگین چولی چنری تھی اب اِمپورٹیڈ باڈی لوشنز‘ نئے نئے پرفیومز‘ ویکسنگ اور پفنگ کے بعد بلش آن اور کاسمیٹکس۔۔۔تو یوں ہے کہ اِسے دِیکھے جانے کے لیے تیار ہونا ہے ۔ پہلے بھی ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔۔۔ دِیکھو اور دِیکھے جاؤ ۔ ادھرترقی یافتہ معاشروں میں یہ دِکھنے والی ’’شَے‘‘اپنے اِس’’ منصب ‘‘سے معزول نہیں ہوئی۔ بس وہاں یہ فرق پڑا ہے کہ اسے بے آڑاورمکمل دِیکھنے کے لیے لباس تک کے بوجھ سے آزاد کرالیا گیا ہے اور ساتھ اس سراب کی فضا بھی باندھ دی گئی ہے کہ اس باب میں اسے خود مختیار رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف اسی سماج میں یہی عورت جو رشتوں کے بوجھ کو بھی جھٹک بیٹھی ہے اس پر مزید معاشی بوجھ لادکر اسے اس باب میں مرد کی برابری کا مرتبہ فضلیت عطا فرمادیا گیا۔ بشریٰ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے میں نے اس مقام فضیلت کی عطاکو ایک دھوکے طور پر شناخت ہوتے پایا ہے۔
لیکن ٹھہریے صاحب کہ مجھے بشریٰ کی کہانی پر ڈھنگ سے بات کرنے سے پہلے‘ یہ جو منٹوکے اوپر درج ہوجانے والے شدید جملوں نے روک رکھا ہے‘ اس سے نمٹ لینا ہو گا۔ آخر عورت کے بارے میں ڈھنگ سے مرد ہی کیوں لکھ پاتا ہے؟ (اگر منٹو کا دعویٰ درست ہے تو؟) اور عورت پر مصیبت کا کیا آسمان ٹوٹ پڑاہے کہ وہ اپنے بارے میں سچ لکھنے سے کتراجاتی ہے۔ ممتاز مفتی نے تو اس باب میں یہ کہہ کر‘ کہ عورت دِکھنے پر یقین رکھتی ہے‘لہذا اپنا وجود اجالتی ہے اور اپنے وجود کی گہرائی میں اترنا اس کا چلن ہے ہی نہیں ‘ اپنے قلم کا رخ رنگ رس اچھالتی عورتوں کی طرف موڑ دیا تھا مگر میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اِس باب میں بشریٰ جمال کے افسانے پڑھ کرفکشن کے ان دونوں بابوں سے الگ‘ وہاں جا کھڑا ہوا ہوں جہاں بشریٰ ہے ۔۔۔اپنے پورے وجود سمیت۔۔۔ وہاں ‘جہاں عورت محض دِکھنے کی شے ہے نہ روایات کی اسیر ۔ اِس علاقے میں دامودر گپت کی نٹنی منم کا وجود‘ منٹو کی سفاک نگاری اور مفتی کا لذت بھرا چسکا سب کچھ قضا ہو جاتا ہے ۔ مجھے بشریٰ ٰ کے افسانوں نے جس علاقے میں پہنچا دیا ہے وہاں عورت اپنے وجود کے ساتھ موجود ہے مگر لطف یہ ہے وہ محض جسم نہیں ہے اس کے کندھوں پر سر بھی ہے جو سوچ کے نور سے اسے الگ دھج سے اجال رہا ہے :
’’میں نے حیران ہوکر پوچھا اور دیکھا:
وہ تنہا نہ تھی اس کے گرد تو انسانوں کی باڑ تھی ۔ وہ ننگے سر عورتوں ‘ ننگے پاؤں مردوں ‘ اور ننگ دھڑنگ بچوں کے درمیان تھی۔
جن کو قانونی تحفظ کی ضرورت ہے باڑ کی نہیں۔
اب میں نے کن اکھیوں سے اپنے گرد لگی باڑ کو دیکھا اور سوچا:
میں جس چاردیواری میں ہوں ‘وہ کیا ہے؟
وہ جو سرعام ہے ‘ کہاں ہے؟
اس کے پیچھے جلوس اور پتھر ہیں
میرے پیچھے خوف اور تن آسانیاں۔
وہ باعمل ہے ‘میں تختہ مشق۔
جلوس قریب پہنچ رہا تھا
اب مجھے ان کا ڈر نہ رہا‘اپنا پڑ گیا تھا۔ مجھے میرا ضمیر مار رہا تھا۔
جو دوسروں کے ضمیر کی شکار تھی ‘مطمئن تھی
جلوس ہم دونوں کو گھیر چکا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی :
حق ملتا نہیں لیناپڑتا ہے۔ انصاف ہوتا نہیں کروانا پڑتا ہے۔‘‘
(افسانہ :تحفظ)
اندر والی عورت ہو یا باہر والی ‘دونوں کو اس سماج میں بطور انسان احترام پانا ہے ۔ بشریٰ کی کہانی اسی بنیادی قضیے کو لے کر چلتی ہے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے ‘ تیز اور تیکھے جملوں کے ساتھ۔ یہ سوئے ہوئے انسانی وجود پر ٹہوکے لگانے والے اور ٹھہری ہوئی سوچ کو مہمیز لگانے والے جملے واقعے کا التباس پیدا کرتے ہیں ۔ ایسا التباس جو محض اور صرف ایک کہانی کاواقعہ نہیں رہتا انسانی تاریخ پر بیتنے والا سانحہ ہو جاتا ہے۔
بشریٰ کی کہانیوں میں تیز آہنگ سے بہتے سوچ کے چلن نے جس عورت کو کاغذ پر اتارا ہے وہ اس عورت سے بہت مختلف ہے جو ہمارے افسانے میں لذت ہو جاتی رہی ہے ۔۔۔بقول ممتاز مفتی مٹھائی کے اس تھال کی طرح جو حلوائی باہر سجا دیتا ہے ۔
بشریٰ کی کہانیاں اگر محض لذت نہیں ہیں تو وقت گزاری کا مشغلہ بھی نہیں ہیں کہ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور انسانی دکھوں ‘ مجبوریوں اور نارسائیوں کو عورت کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔یہاں مجھے julia kristeva کی بات یاد آتی ہے ۔ اس نے زور دے کرکہاتھا : "By women , I mean that which con't be represented." اور یہ بھی‘ کہ عورت کو جاننے کا دعویٰ کرنے والوں کو مان لینا چاہیے کہ عورت تو وہ ہے جو بیان سے باہر ہے جوکسی بھی نظریے اور تعریف سے بلند ہے ۔
بشریٰ جمال کا یہ چلن مجھے اچھا لگا ہے کہ اس نے بیان سے باہر رہ جانے والی عورت کو کہانی کے تخت پر بٹھانے کے جتن کیے ہیں تاہم اس باب میں ابھی کرنے کا بہت کام ہے ۔ جس طرح کا سفاک جملہ لکھنے کا حوصلہ بشریٰ کے پاس ہے اور جس سلیقے سے وہ اپنے حق میں فضا بنا لیتی ہے اور جس سہولت سے وہ اپنی بات کہہ جاتی ہے ‘ اس سے امید بندھنی چاہیے کہ وہ اس باب میں بہت آگے تک اور بہت دور تک جا سکتی ہے ۔


محمد حمید شاہد
  اسلام آباد

No comments:

Post a Comment

Followers