Monday, December 31, 2012

خواب اور حقیقت کے جھٹپٹے میں


خواب اور حقیقت کے جھٹپٹے میں
َّّّ______________ساجد گل کے ناول کا دیباچہ محمد حمید شاہد کے قلم سے

ساجد گل کی شاعری کو پڑھ کر میں پہلے ہی اسے ایک تہذیبی آدمی کے طور پر شناخت کر چکا تھا، ایک ایسا تہذیبی آدمی، جو اپنے ماضی اور اپنی روایت سے بہت گہرا رشتہ استوار رکھے ہوئے ہے ۔ کہانی ایک سلطنت کی، تک آتے آتے ، مجھے یوں گمان ہونے لگا ہے کہ ہو نہ ہو ساجد گل میں بیتال پچیسی والے راجہ بکرم سین کی روح اور طاقت سمائی ہوئی ہے۔ میرے دھیان میں راجہ بکرم سین یوں آیا ہے کہ اس کے ذریعے گوداوری دریا کے کنارے آباد پرتشتھن سلطنت کے تخت کے مالک کے ساتھ دانش کو جوڑ دیا گیاتھا۔ ساجد گل کی سلطنت کی کہانی کا بنیادی تنازع بھی یہی دانش ہے ۔ کہانی ایک سلطنت کی، میں راج دیوتا کی مدد سے اپنے باپ کو مروا کر تخت ہتھیا لینے والا عاقبت نااندیش بادشاہ اُس دانش کے معاملے میں تہی دست ہے جو ہماری داستانوں میں شاہوں کا وتیرہ ہوا کرتی تھی ۔ یوں دیکھیں تو یہ کہانی ماضی سے جست لگا کر موجود میں قدم رکھتی اور ہمارے حال سے بامعنی مکالمہ کرتی ہے ۔
میں اس پر اصرار نہیں کروں گا کہ ساجدگل نے اپنی کہانی کے ہر کردار کے لیے کوئی نہ کوئی علامتی ذمہ داری ادا کرنے کا وظیفہ مقر ر کر رکھا ہے تاہم کہانی کے مرکزی کرداروں کے باب ہم ایسا وثوق سے کہہ سکتے ہیں ۔ ۔۔ لیکن ٹھہریے صاحب ، مجھے عین آغاز میں ہی قصہ کہانی اور داستان کی روایت کو ایک طرف دھر کر یوں نہیں سوچنا چاہیے ۔ جب سے ہماری کہانی کے چلن بدلے ہیں وہ تاریخ اور سیاسی اتھل پتھل کے زائیدہ واقعات کی ترتیب کی لاٹھی ٹیک کر چل پاتی رہی ہے ۔ اس کا اچھا یا برا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ایک زمانے میں داستان کہنے والوں کے ہاں کرشمہ دکھانے والی تخئیلی قوت ہمارے زمانے تک آتے آتے اس طرح لائق اعتنا نہیں رہی ہے ۔ بل کہ یوں کہہ دینا ہوگاکہ اس پر سے ہمارا ایمان اٹھ گیا ہے۔ ۔۔ ہمارے اٹھے ہوئے اور ماضی سے برگشتہ اس ایمان سے ساجد گل کی کہانی کوئی معاملہ نہیں کرتی۔ تو یوں ہے صاحب کہ یہ کہانی پڑھنے، اور اس سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے ، ہمیں جدید فکشن کے تعصبات کو بہر حال کچھ وقت کے لیے ایک طرف رکھ دینا ہوگا۔
جدید فکشن کے ہنگامے میں ساجد کایہ تخلیقی اورتخئیلی حیلہ مجھے یوں اچھا لگا ہے کہ اس طرح،اس کہانی میں، ماضی کے سرس کے پیڑ سے بندھی مضبوط رسی سے لٹکی جو لاش کھول کرساجد اپنے کندھے پر اٹھا لایا ہے وہ تعفن نہیں چھوڑتی ، کہ وہ جی اٹھی ہے اور بولتی بھی ہے۔ ایک دفعہ پھر دھیان میں راجہ بکرم سین آگیا ہے ، وہی جو شانت شیل جوگی کے دیے ہوئے پھل بے اعتنائی سے اپنے خزانچی کو دے دیا کرتا تھا ۔ اور خزانچی یہ جانے بغیر ،کہ ہر پھل میں ایک رتن ہے ،کھڑکی سے خزانے کے اندر لڑھکا دیا کرتا۔ ساجد کی شاعری پڑھتے ہوئے لگ بھگ اسی نوع کی بے اعتنائی سے میرا واسطہ رہا ہے تاہم اس کہانی کی وساطت سے میں اس راجہ بکرم سین سے ملا ہوں جس پر ان رتنوں کا بھید کھل چکا ہے۔
کہانی ایک سلطنت کی، کے بادشاہ کے پاس جس دانش اور جرات کو ہونا چاہےئے تھا ، وہ کہانی کے دوسرے کرداروں کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ کردار آقا بالان، خوکام ،دارا،اناجیل،زولی اور سابل کے ہیں ۔ کہانی پڑھتے ہوئے میری ساری توجہ دارا اور اس کے بیٹے اناجیل نے کھینچے رکھی ہے ۔ اگرچہ کہانی میں کرداروں کے ناموں کو نامانوس رکھنے کی شعوری کوشش ملتی ہے تاہم دارا اور اناجیل اپنے خالق کو غچہ دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ کہانی کے دارا کو پڑھتے ہوئے ، آپ چاہیں نہ چاہیں اس نام سے وابستہ تاریخ اس کی قامت کا حصہ ہو جاتی ہے ۔ ایک دارا تو وہ تھا جو گومتا کے قتل کے بعد تخت پر بیٹھا تھا تو اس نے ساری بغاوتوں کو کچل کر رکھ دیا تھااور جس نے ایشیائے کوچک،شمالی یونان ، عرب ، افغانستان اور ہمارے ہاں کے پنجاب اور سندھ کے علاقوں کو بھی ایرانی سلطنت کا حصہ بنالیا تھا۔ دوسراتاریخی کرادار جو ساجد کی کہانی کے اس کردار کی معنویت کو تقویت دیتا ہے ،وہ اردشیر کے تخت پر بیٹھنے والا دارا ہے ۔ وہی جو اتنی ہمت والا تھا کہ سکندر اعظم کی فوجوں سے ٹکرا گیا تھا۔ اس کردار کو پڑھتے ہوئے مغل شہنشاہ شاہجہان اور ممتاز محل کا بیٹا داراشکوہ بھی دھیان میں رہتا ہے جو تصوف اور ویدانت کا شیدائی تھا اور جس کی شہادت کی انگلی میں ایسی انگوٹھی ہواکرتی تھی جس پر249249 اوم،، کندہ تھا۔ اگرچہ ساجد کا دارا ان کرداروں کا چربہ نہیں ہے مگر کہانی کی مجموعی فضاان ہی کی جیسی جرات، دانش اور داراشکوہی تصوف کے مظاہر سے متشکل ہوتی ہے۔
چودھویں رات کی دودھیا چاندنی میں،خوب چڑھے ہوئے دریا کے عین بیچ ابھرتے،تیرتے انتہائی مرصع تخت پر براجمان روشن پیشانی والے دیو مالائی کردارکا سونپا ہوا فریضہ، اٹھارہ برس کا ہوتے ہی ،جس کردار کوادا کرنے کے لیے نکل کھڑا ہونا تھا،وہ اناجیل ہے۔ جی،کہانی کا مرکزی کردار اناجیل، جو دارا جیسے پرشکوہ کردار کا بیٹا ہے۔ کہانی کے عین آغاز میں جس طرح اناجیل جس ماورائی جہت کی طرف لپکتا ہے، کہانی کے تیسرے حصے میں خود اسی کا حصہ ہو جاتا ہے ۔مر کر بھی نہ مرنا، اپنے ہمزاد عقاب کو اپنے وجود میں اترتے دیکھنا اور اس تخت پر براجمان ہوجانا جس کے گرد مچھلیاں،تتلیاں اور پریاں ناچتی ہیں، یہ سب کچھ کہانی کے اس کردار کے گرد ایک روشن ہالہ بنا گیا ہے ۔ ایسے کردار اگرچہ ہمارے مشاہدے کا حصہ نہیں ہیں تاہم ہماری داستانوں کے مرغوب کردار ہونے کی وجہ سے ہمارے لاشعور کا حصہ رہے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ انجیل متی ،انجیل مرقس،انجیل لوقااور انجیل یوحنا میں سے پہلی تین کو اناجیل خلاصہ کہتے ہیں ۔ ساجد کا تراشا ہوااناجیل کا کردار بھی ایک سطح پر مرصع تخت والے، دارا،آقا بالان اوراوتاد بابا جیسے روشن کرداروں کا خلاصہ ہے اور ان کی توسیع بھی ۔
میرا خیال ہے کہ مجھے اس کہانی کے کرداروں کے حوالے سے اپنی بات کویہیں روک لینا چاہیے کہ اس طرح تو کہانی کھل جائے گی جب کہ مناسب یہ ہے کہ آپ کہانی کے سحر میں اس کے بیانیہ کے وسیلے سے اتریں ۔ کرداروں کا قصہ تو میں نے یوں چھیڑا تھا کہ اس کہانی کی بدلی ہوئی فضا کے بارے میں آپ کوچوکنا کردوں اور بتادوں کہ اسے پڑھنے اور اس کی معنویت کو پانے کے لیے عصری سانحات سے نتھی مزاج اور کیفیت کی نہیں بل کہ داستان کی تہذیب اور روایت سے آگہی کی ضرورت ہو گی ۔
صاحب میری اس بات سے یہ گمان مت باندھ لیجئے گا کہ اس میں اپنے عصر سے جڑا ہوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتاتو یقین کیجئے کہ یہ تحریر میرے لیے قطعا لائق اعتنا نہ رہتی ۔ جنسیت اور مارکیٹ اکانومی کیسے سامراج کا ہتھیار بنتی ہیں ، سپہ سالاروں کی وفاداریاں کیسے خریدی جاتی ہیں اورقوموں کو مقروض کرکے کیسے غلام بنایا جاتا ہے ،مذہب کیسے بدنام ہوتا ہے اور عالی شان مملکت کوحکمرانوں کی نادانیاں کیوں کر دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں ،یہ سب کچھ اور بہت کچھ ساجد گل کی اس کہانی کا حصہ ہو گیا ہے اور ساجد کا کمال یہی ہے کہ اس نے اجنبی اور دیومالائی فضا اور کرداروں کی مدد سے جس کہانی کو لکھا ہے اس کے سارے تنازعات ہمارے اپنے قومی اور عصری آشوب کی تفسیر ہو گئے ہیں ۔ اوپر، جب میں اناجیل کے حوالے سے، چودھویں رات کا ذکررہا تھا تو میرے ذہن میں وہ چودھویں رات تازہ ہو گئی تھی جب بیتال پچیسی والا راجہ بکرم سین اپنا وعدہ نبھانے اپنے محل سے نکلا تھا ۔ بیتال کی ایک کہانی میں مدن سندری کا شوہر اور بھائی دھاول دیوی پرقربان ہونے کے لیے اپنی اپنی گردنیں کاٹ ڈالتے ہیں ۔ یہاں یہ قصہ یوں یاد آیا ہے کہ جب مدن سندری نے دیوی جی کا فرمان سنتے ہی کٹے ہوئے سر بدنوں سے جوڑ دیے تھے ، عجلت میں شوہر کا سر بھائی کے بدن پر اور بھائی کا سر شوہر کے دھڑ پر، تو راجہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا کہ مہاراج بتائیے تو ان دونوں میں سے مدن سندری کا اصل شوہر کون ہے ؟ وہ جس کے دھڑ پر مدن سندری کے شوہر کا سر لگاہے یا وہ جس کابدن اس کے شوہر کاہے ۔ ساجد نے بھی ادبدا کر اپنی ماورائی ماحول بناتی اس قدیم کہانی کے بدن پر جدید سوچتا ہوا سر نصب کر دیا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس باب میں قاری کیا فیصلہ کرتا ہے، اس فن پارے کو اپنے ہئیتی مزاج کی مناسبت سے داستان کہتاہے یامتن میں جدید حسیت کے رواں دھارے کو دھیان میں لاکر ناول قرار دیتا ہے ۔ مجھے تو ساجد گل کی 249249کہانی ایک سلطنت کی ، داستان اور ناول ،خواب اور حقیقت کے ساتھ ساتھ تحیّر اورتنبُّہ کے جھٹپٹے میں تخلیق ہونے والا ایسا کھولتا ہوا سوال شرارہ لگتی ہے جس کا جواب ہمارے قومی شعورپر قرض ہے۔۔ اور جس کے جواب کی تاہنگ ہمارے بدنوں میں گہرائی تک سرایت کرگئی بے حمیتی اور کسالت کو خاکستر کرکے ہمیں چودھویں رات کی دودھیا چاندنی میں اپنا تفویض کیا گیا فریضہ ادا کرنے کے لیے نکلنے والے اناجیل جیسا بنا سکتی ہے ۔ اناجیل ؛جس کا وجود روشنی،دانش، امید اورخوش خبری کاا ستعارہ ہو گیا ہے۔

محمد حمید شاہد 
ا سلام آباد

Back to Conversion Tool

No comments:

Post a Comment

Followers